آج کی تحریر میں ایلینز کی کہانی بھی سنا دیتا ہوں۔ کیا کائنات کے کسی حصے یا کونے میں ایلینز بستے ہیں یا نہیں؟ انسان نہ جانے کب سے اپنے جیسی کسی دوسری دنیا کی مخلوق کی تلاش کر رہا ہے۔ سائنسداں زمین سے ریڈیائی لہریں بھیج کر دوسری دنیا کی مخلوق سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب تک دوسری دنیا کی کسی مخلوق نے کسی بھی انسانی پیغام کا جواب نہیں دیا ہے۔ دوسری دنیا کی مخلوق انسانی پیغامات کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟
وہ کہاں ہیں؟ ہیں بھی یا نہیں؟ کچھ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق انسانوں جیسی ذہین مخلوق اس کائنات میں مختلف سیاروں پر موجود ہے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ ہیں تو ان سے ہمارا رابطہ کیوں نہیں؟ آخر وہ کہاں ہیں؟ ’سرچ فار اکسٹرا ٹریسٹریئل انٹیلیجنس‘ نامی ادارہ کئی سالوں سے اس کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ سائنسدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایلینز کے وجود کی انکاری ہے۔ ان سائنسدانوں کے مطابق انسان اس کائنات میں واحد ذہین مخلوق ہے۔
ان کے مطابق کسی خلائی مخلوق کی موجودگی محض خیال خام ہے۔ یہ سائنسدان کہتے ہیں انہوں نے تحقیق میں یہ پایا کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ کائنات میں انسان جیسی کوئی دوسری ذہین تہذیب نہیں ہے۔ سائنسی محققین کا خیال ہے کہ سائنسدانوں کو دوسری دنیا میں زندگی اور دوسری دنیا کی مخلوق یا ایلینز کی تلاش جاری رکھنا چاہیے۔ ایلینز کے امکانات کم ہونے کے باوجود اگر ہمیں مستقبل میں کبھی یہ پتہ چلے کہ کہیں کوئی ذہین خلائی مخلوقی تہذیب ہے تو بھی ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ کائنات کا نام سنتے ہی ہم لوگوں کے ذہن میں تجسس بھرے سوال اٹھتے ہیں کیونکہ کائنات میں ایسے حیرت انگیز چیزیں موجود ہیں جو ہماری عقلوں کو حیران کرنے کے لئے کافی ہے۔
یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ ہماری کائنات میں ایسی کوئی بھی شے نہیں جو حرکت میں نہ ہو مطلب ہر ایک چیز اس کائنات میں حرکت کر رہی ہے جیسے زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو سورج کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے اور کہکشاں خود کائنات میں 550 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے تیر رہی ہے۔
اسی طرح کائنات میں موجود ہر ایک شے حرکت کر رہی ہے۔ ہماری کائنات مکمل خاموش ہے مطلب آپ خلاء میں کوئی آواز نہیں سن سکتے کیونکہ آواز سننے کے لئے آپ کو ایک میڈیم کی ضرورت ہوگی جو سپیس میں نہیں ہے اس لیے سائنسدان خلاء میں ریڈیو سگنلز کا استعمال کر کے ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ایک سیارہ دریافت کیا ہے جس کا نام 55 کیسری ای ہے۔ یہ سیارہ ہماری زمین سے تین گنا بڑا ہے اور اس سیارے کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سیارہ مکمل ہیرے کا بنا ہوا ہے اور یہ زمین پر موجود ہر انسان کو کروڑ پتی بنا سکتا ہے لیکن وہاں پر جانا فی الحال انسان کے بس کی بات نہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ خلاء میں موجود انسان زمین پر موجود لوگوں سے 2 انچ لمبے ہو جاتے ہیں مطلب خلاء میں جسم 2 انچ لمبا ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گراوٹ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی زمین پر موجود انسانوں کے مقابلے میں سیدھی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں سائنسدان خلاء میں دو انچ لمبے ہو جاتے ہیں۔ چاند ہماری زمین سے ہر سال چار اعشاریہ چار سینٹی میٹر دور ہوتا جا رہا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہماری آنے والی اولادیں چاند کے بارے میں صرف کتابوں میں ہی قصے کہانیاں پڑھے گی کیونکہ اس وقت چاند نامی قدرتی سیٹیلائٹ زمین سے اتنی دور جا چکی ہوگی کہ اسے محض ٹیلی سکوپ سے ہی دیکھا جا سکے گا۔
کائنات میں اتنے زیادہ ستارے موجود ہیں کہ جن کو ہم نہیں گن سکتے۔ اگر آپ اس دنیا میں موجود سات بلین لوگوں کے سر کے ہر ایک بال کو گننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی بالوں کی یہ تعداد کائنات میں موجود ستاروں کے سامنے کچھ نہیں اور جتنی دیر میں آپ نے یہ پڑھا کہ ستارے گننا ناممکن ہے اتنی دیر میں ان گنت ستارے ختم ہوچکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ جنم لے چکے ہیں۔ چاند پر موجود انسانوں کے رکھے گئے قدم آنے والے دس ارب سالوں تک باقی رہنے والے ہیں کیونکہ چاند پر نہ تو ہوا ہے، نہ پانی ہے اور دس ارب سال بعد یہ قدم چاند پر گرنے والے شہابیوں کی وجہ سے مٹ جائے گے۔
کائنات میں ایک ستارہ ایسا بھی ہے جس کی سطح کا ٹمپریچر محض 27 سینٹی گریڈ ہے۔ میں یہاں کسی سیارے یا چاند کی بات نہیں کر رہا ہو میں ایک ستارے کی بات کر رہا ہو جس کی سطح کا درجہ حرارت صرف 27 سینٹی گریڈ ہے۔ اس ستارے کو وائس 8028 کا نام دیا گیا ہے اور اس پر مزید تحقیق جاری ہے۔ ہمارے سورج کا سائز ہمارے زمین کے نسبت اتنا بڑا ہے کہ اگر آپ سورج کا سائز ایک فٹ بال گراؤنڈ جتنا کر دیں تو ہمارے زمین کا سائز ایک مٹر کے دانے جتنا ہوگا۔
اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے کتنا بڑا ہے۔ کائنات میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جو مکمل خالی ہے۔ یہ جگہ اربوں نوری سال پر پھیلی ہوئی ہے اور اس جگہ کو سائنسدانوں نے بوٹس پوائنٹ کا نام دیا ہے۔ اربوں سال پر پھیلا ہوا یہ مقام مکمل خالی ہے۔ ماہرین فلکیات کائنات میں چھپے پوشیدہ راز منظر عام پر لانے کے لیے مختلف انداز سے تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ اسی ضمن میں چند سال قبل یورپی خلائی ادارے نے کائنات کی قدیم ترین روشنی کا ایک نیا نقشہ تیار کیا تھا، جس کے ذریعے یہ معلوم ہوا تھا کہ کائنات کی عمر پہلے لگائے گئے تخمینے سے زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ نقشہ کائنات کی ابتدا اور ارتقاء کے بگ بینگ ماڈل کی بہت بہتر ین انداز سے توثیق کرتا ہے۔ تا ہم اس نقشے میں ایسے نکات بھی ہیں جو غیر متوقع ہیں۔ یہ نقشہ مصنوعی سیارے پر نصب پلانک نامی دوربین سے 15 ماہ تک جمع کردہ ڈیٹا کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق کائنات کی عمر 3 ارب 77 سال ہے۔ حالاں کہ اس نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر 13 ارب 82 کروڑ سال ہے۔ کائنات میں موجود مادہ 37.7 فی صد ہے جو پہلے کے تخمینے سے تھوڑا سا زیادہ ہے اور سیاہ توانائی (ڈارک انرجی ) تھوڑی سی کم، ۔ سیاہ توانائی وہ طاقت ہے جو کائنات کو زیادہ رفتار سے پھیلا رہی ہے۔ اس تاریک قوت کے عمل پذیر ہونے سے کہکشاؤں کے درمیان طویل فاصلوں نے جنم لیا اور یہ ایک دوسرے سے بہ تدریج دوری اختیار کر گئیں۔
ماہرین نے اس نقشے میں بگ بینگ کے بعد رونما ہونے والی تقریباً تمام تبدیلیوں کو کسی طور جامعیت دینے کی بھی کوشش کی۔ سائنسدانوں کے مطابق اربوں سالوں کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی یہ کائنات ابھی نوعمر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کائنات کے بارے میں ہمیں جتنا علم ہے وہ اس سے کئی گنا بڑی ہے۔ سائنس دانوں کی بین الاقوامی ٹیم خلا کی وسعتوں کا ازسر نو مشاہدہ کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق نئے مشاہدے کے ذریعے کائنات کے گہرے ترین رازوں پرسے پردہ اٹھ رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں بلیک ہولز پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان بلیک ہولز کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ کسی نئی دنیا میں داخلے کے دروازے ہیں۔
تحریر : اجمل شبیر