محاورہ مشہور ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ۔جب تک انسانوں نے چاند کو بہت ہی قریب سے نہیں دیکھا تھا وہ سمجھتا رہا کہ چاند بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت سیارہ ہے اور وہ اس کی تعریف میں طرح طرح کی کہانیاں اور نظمیں لکھتا رہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چاند اپنی خوبصورتی کے لئے سورج کا محتاج ہوتا ہے ۔سورج کی شعاعیں جب چاند پر پڑتی ہیں اور انسانی دنیا پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو دور سے چاند کا جمال نکھر کر آجاتا ہے ۔اس کے بر عکس انسان نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ خود دنیا کی ہر مخلوق سے زیادہ خوبصورت اور حسین ہے ۔قرآن میں آتا ہے کہ
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
ہم نے انسان کی تخلیق بہت ہی احسن طریقے سے کی ہے
انسان جس گاؤں کا باشندہ ہے یا جہاں سے ہجرت کرکے زمین پر اتارا گیا ہے یعنی جنت وہ بستی بھی کتنی خوبصورت اور حسین و جمیل ہے اس کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے ۔ قرآن نے کچھ اس کی بھی منظر کشی یوں کی ہے کہ یہاں بہت ہی خوبصورت باغات پھل پھول کے ساتھ نہریں بہتی ہوں گی ۔ممکن ہے کہ زمین چاند سے بھی خوبصورت ہو لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ چراغ تلے اندھیرا ۔انسانوں نے زمین کو کبھی دور سے دیکھا ہی نہیں ورنہ قدرت نے زمین میں جو باغات سمندر اور خوبصورت دریاؤں کی شکل میں مختلف قسم کے مناظر تخلیق کئے ہیں زمین چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آۓ گی ۔مگر بھلا ہو پرانے دور کے جنگل اور بیابانوں میں سیر کرنے والے شاعروں کا جنھوں نے چاند کو اپنے محبوب سے بھی زیادہ خوبصورت قرار دے کر اس کی توہیں کرنا شروع کردیا ۔یہ محبوب کوئی اور نہیں اس کی رفیق حیات ہے جسے جنت میں حضرت آدم کو عورت کی شکل میں تحفے کے طور پر عطا کیا گیا تھا ۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ تحفہ ویسے بھی بہت خوبصورت ہوتا ہے مگر جو تحفہ مالک کائینات کی طرف سے اپنے بندے کو دیا گیا ہو وہ کتنا خوبصورت اور حسین و جمیل ہوگا ۔عورت کی اسی خوبصورتی پر کسی شاعر نے کہا ہے جس کی رچنا اتنی سندر وہ کتنا سندر ہوگا ۔
لیکن شاعروں نے بیشتر اوقات اپنے محبوب کی چاند سے تشبیہ دی ہے ۔
جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
تمہارے شانوں پہ زلفیں گریں تو ایسا لگا
گھٹا میں چاند نکل آیا چاندنی لیکر
یا پھر کسی نے کہا
یہ دلفریب فضا اور شب کے نظارے
بجھی بجھی سی ترے بن یہ چاندنی سی لگی
کسی فلم کا یہ نغمہ بھی بہت مشہور ہے کہ
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا
ہاں تم بالکل ویسی ہو ،جیسا میں نے سوچا تھا
غرض کہ شاعروں کی کوئی بھی تخلیق جو اپنے محبوب کی تعریف میں لکھی گئی وہ چاند کی خوبصورتی کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے
شکر ہے بیسویں صدی کی انسانی سائینس کا کہ اس نے جہاں بہت سے میدانوں میں تحقیقی فرائض انجام دئیے فرصت کے اوقات میں کائینات کی سیر اور تحقیق کا بھی ارادہ کیا اور خلاء میں اپنے سیٹلائٹ کیمرے بھیجے تاکہ معلوم کیا جاۓ کہ جس طرح دنیا میں انسانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے کیا چاند پر بھی دنیا بسائی جا سکتی ہے ۔سب سے پہلے یہ تجربہ امریکہ نے کیا اور وہ اس کا اہل بھی تھا ۔اس کے بعد روس اور پھر چین نے کیا ۔اس تجربے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ جسے ہم چاند کہتے وہ محض دھول مٹی اور ریت کا ڈھیر ہے ۔وہاں نہ نہریں ہیں نہ باغات نہ دریا نہ سمندر نہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے نہ خانہ کعبہ ہے نہ بیت المقدس نہ مقدس شخصیات کی مزاریں ۔اب جس منصوبے کے تحت یہ تجربہ کیا جارہا ہے کم سے کم مسلمانوں کے لئے تو بالکل یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہے ۔ہاں یہاں ان کو بسایا جا سکتا ہے جو ناستک ہیں یعنی کسی خدا کو نہیں مانتے ۔جو خدا کی عبادت کرتے ہیں ان کے لئے مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے ۔خاص طور سے مسلمان تو بالکل وہاں بسنے کی سوچ بھی نہیں سکتا کیوں کہ وہ نماز کس رخ کو پڑھے گا اس پر بھی وہاں مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں اور چاند پر کئی فرقے وجود میں آجائیں گے ۔سب سے بڑا اختلاف تو چاند پر بسنے والوں مسلمانوں کے لئے یہ ہوگا کہ وہ رمضان اور عید کے مہینے میں کیا دیکھ کر روزہ رکھے گا اور عید منانے کا ؟ پھر وہ چاند کو لیکر اختلاف کیسے کرے گا !
قدرت نے بہت سوچ سمجھ کر آدم کو زمین پر اتارا ہے اور زمین ہر سیارے سے زیادہ خوبصورت ہے ۔شکر ہے پچاس سال پہلے امریکہ نے چاند کی تحقیق کے لئے خلائی مشین میں کیمرہ نصب کر کے بھیجا اور پھر کافی عرصے تک اس کوئی تجربہ کرنے سے توبہ کر لیا ۔یا ممکن ہے ادھر اسی کی دہائی سے وہ مسلسل زمین پر جنگ اور فتح و شکست کے مرحلے میں مشغول رہا ہو لیکن روس اور چین جو کہ امریکہ کے حریف ہیں اس کی بات پر کب یقین کرتے ۔انہوں نے سوچا کہیں امریکہ نے تنہا ہی چاند پر قبضہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہو اپنی اپنی خلائی مشینوں کو بھیجنا شروع کیا ۔چونکہ بھارت مغلوں کے دور میں سیکڑوں سال تک وشو گرو رہ چکا ہے اس لئے اس کے عزائم بھی بلند ہیں اور وہ اپنا یہ مقام دوبارہ حاصل کرنے کے فراق میں ہے ۔لیکن یہ سوال ہمیشہ جواب طلب رہے گا کہ کیا چاند پر صرف کیمرے نصب کرکے کوئی ملک سپر پاور بن سکتا ہے ؟
اگر چاند پر خلائی مشین بھیج دینا فخر کی بات ہے تو پھر فرانس جرمنی اٹلی کوریا اسرائیل ترکی اور جاپان کی ٹکنالوجی بھارت سے سو سال آگے ہے انہوں نے ابھی تک ایسا کوئی تجربہ کیوں نہیں کیا ۔یہ وہ ممالک ہیں جو دوسرے ممالک کو فائٹر جیٹ ،ٹینک مشین گن ، ہیلی کاپٹر اور دیگر ڈیجیٹل جنگی سامان فروخت کر رہے ہیں جبکہ بھارت ابھی تک عام ہوائی جہاز بھی نہیں بنا سکا ہے ۔باقی رہا سوال ہتھیاروں کا تو دنیا جانتی ہے کہ ہم اپنے ہتھیاروں کیلئے روس امریک
ہ فرانس اور اسرائیل کے محتاج ہیں ۔
خیر چاند پر کیمرہ نصب کر کے بھارت کو کیا فائدہ حاصل ہونے والا بھارت کی نناوے فیصد لوگوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔وہ صرف اس بات سے خوش ہے کہ ہماری حکومتوں نے چندریان ایک اور چندریان تین کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے اور خود سیاستدانوں کو بھی میڈیا کے ذریعے اس کا فائدہ مل رہا ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ان چاند سے اگر کچھ معلومات حاصل بھی ہو جانے تو اس کے بعد کیا ہمارے پاس اس پر عمل کرنے کے ذرائع اور وسائل موجود ہیں جبکہ خود بھارت کو ابھی پوری طرح بھارت میں امن و چین انصاف اور صحت و تعلیم اور دیگر صنعت و ٹکنالوجی اور تجارت کے شعبے میں خودکفیل ہونے میں صدیوں کی مسافت کا سفر درکار ہے !
تحریر: عمر فراہی