اندھیری رات کا بدر منیر، پھول سے زیادہ نازک، شہد جیسی میٹھی شخصیت کا نام ہے ڈاکٹر محمد نور اسلام علیگ
ازقلم : محمد رفیع
7091937560
rafimfp@gmail.com
مضمون کی شروعات میں ” نادم اشرفی برہان پوری ” کی ایک مشہور شعر سے کر رہا ہوں
گل میں شفق میں چاند میں تاروں میں کھو گئے
وہ ایک آپ ہیں جو ہزاروں میں کھو گئے
ادب کی زنگ آلود فضا میں ایک چاند نمودار ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی رمق اتنی تیز ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لینے کا خواہشمند ہے۔ اندھیری رات میں نکلنے والا بدر منیر، چاندنی رات کی کیفیت سے ہم سب خوب واقف ہیں۔ ایسا ہی ایک چاند ادب کی دنیا میں، تہذیب کی سرزمین پر ڈاکٹر محمد نوراسلام علیگ کی شکل میں نمودار ہوا ہے جن کی صلاحیتوں کا ڈنکا ادب کی دنیا میں ہر سو بج رہا ہے۔
ڈاکٹر محمد نوراسلام علیگ ابھی ناظم امتحانات بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ ہیں۔ قریب ایک درجن تنظیموں کے وہ رکن رہے ہیں یا آج بھی ہیں۔ ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ان کی ایک درجن سے زائد مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابیں موجود ہیں۔ انہوں نے قاضی عبدالودود سے لے کر شاعر مشرق علامہ اقبال تک کی تخلیقات پر قلم اٹھائے ہیں اور بہترین تحریری نقوش چھوڑے ہیں۔ مندرجہ ذیل کتابیں زیور تصنیف سے آراستہ ہو چکی ہیں
قاضی عبدالودود کی علمی و ادبی خدمات
” معاصر ” کا توضیحی اشاریہ
مدرسہ بورڈ کے زیر اہتمام سیمینار پر مشتمل مجلہ
معاصر کے اہم قلمکاروں کا مختصر تعارف
مدارس ملحقہ مسائل اور حل
مسلمانوں کے شب و روز
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ، رولس، سنکلپ پر مبنی کتاب
ڈائبٹیز (ذیابیطس) پر مشتمل کتاب
آل انڈیا پٹنہ سے نشر شدہ مقالوں کا مجموعہ
دوردرشن پٹنہ سے نشر شدہ مقالوں کا مجموعہ
اخباروں اور رسالوں میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ
علامہ اقبال کی شخصیت اور کارنامے
انہیں مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں نے جناب کی شخصیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ ان کتابوں میں علمی و ادبی صلاحیتوں کا انہوں نے خوب جوہر دکھایا ہے۔ انہیں خدمات کے مد نظر کیفی اعظمی نیشنل ایوارڈ 2023 سے انہیں سرفراز کیا گیا ہے۔ یہ اعزاز انہیں تعلیمی خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی علمی لیاقت و ادبی صلاحیتوں کا مشاہدہ کرنا ہو تو جس کسی پروگرام میں وہ مقالہ پڑھ رہے ہوں اس میں شرکت کر ان کو سنجیدگی کے ساتھ سنیں۔ وہ ایک اچھے مصنف کے ساتھ ہی ایک شاندار مقرر بھی ہیں۔ ناظم امتحانات بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کی شکل میں ان کی مصروفیات کافی ہیں، باوجود اس کے وہ تحریر و تقریر کے میدان نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ بے باک اور صاف گو شخصیت کے مالک ہیں۔ ساتھ ہی ان کےعمدہ اخلاق، اعلی کردار اور جذبۂ ایثار نے انہیں ایک بہترین انسان بنا دیا۔
علمی، ادبی و ملی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ نہ صرف دانشور طبقہ بلکہ عام عوام میں بھی کافی مقبول و مرغوب ہیں۔ اپنی سرگرمیوں کو باقی رکھنے کے مقصد سے وہ آمنہ ویلفیئر اینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ، سمری دربھنگہ، کے فاؤنڈر، سیکریٹری سرسید سوسائٹی آف سوشل ویلفیئر دربھنگہ، السخاوت ایجوکیشنل سوسائٹی سمستی پور کے ممبر اور حل و عقد امارت شرعیہ، پھلواری شریف پٹنہ ہیں۔ اس طرح وہ ممبر سپریم گورنگ باڈی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ممبر ایڈیٹوریل بورڈ، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ممبرایڈیٹوریل بورڈ، وقار میگزین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ممبر اولڈ بوائز ایسوسی ایشن اے ایم یو علی گڑھ، ممبر اے ایم یو ایسوسی ایشن بہار چیپٹر، پٹنہ۔ علمی و ادبی خدمات کے علاوہ وہ ایک بہت ہی اچھے اڈمینیسٹریٹر بھی ہیں۔ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ میں ناظم امتحانات و اکیڈمک انچارج کی حیثیت میں انہوں نے اڈمنسٹریٹیو تجربہ کا جو شاندار مظاہرہ کیا ہے اس کے قائل بہار کے مدرسین ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہیں جو کم از کم ایک بار ان سے ان کے دفتر میں ملا ہو۔
ہیرے کی پرکھ (پہچان) جوہری کو ہوتی ہے۔ سو پرکھ ہوگئی۔ ڈاکٹر محمد نور اسلام علیگ جس خندہ پیشانی سے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے اکیڈمک انچارج معہ ناظم امتحانات کی نہایت ہی مشکل ترین ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں اور اخلاقی طور پر وہ اتنے حساس ہیں کہ عجلت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتے ہیں۔ وہ دور دراز سے بورڈ آفس آنے والوں کا کافی احترام کرتے ہیں اور ان کے کاموں کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہیں، ہاں کسی وجہ سے کچھ لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا ہوا ہو تو یہ استثنیٰ ہے۔
ڈاکٹر محمد نور اسلام صاحب بہت ہی سادہ زندگی گزارنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کے گفتار و کردار میں بھی کافی اعتدال ہے۔ وقت کی فضول بربادی وہ نہیں کرتے ہیں اور لغویات وغیرہ سے پاک و صاف ہیں۔ یہ سب ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا ہی اثر ہے۔ ڈاکٹر محمد نور اسلام جیسا عمدہ کردار کا حامل شخص بڑی مشکل سے ملتا ہے، وہ کافی عمدہ شخصیت کے مالک ہیں ایسے لوگوں کی صحبت کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد نور اسلام اور ان کی پر اثر شخصیت کو دیکھ کر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بے ساختہ زبان پرآتا ہے
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر