تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
ہریانہ کے میرے ایک فکرمند اور درد مند دل رکھنے والے دوست نے ایک دو روز قبل مجھے اپنے یہاں کی دینی صورت حال اور وہاں کے مسلمانوں کے احوال تفصیل سے بتائے۔ دوست کے بیانیے سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی وہاں کے احوال بڑے تشویش ناک ہیں۔ دوست نے بتایا کہ ہمارے یہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ مسلمان ہندوؤں کے ساتھ گھلے ملے رہتے ہیں ، اور ہندوانہ رسم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ جس طرح سے غیر مسلم صبح کو کمپنیوں میں کام کے لیے جاتے ہیں ، اور مشینوں کے آگے ہاتھ جوڑتے ، ان کے سامنے مٹھائیاں رکھتے اور ان کو اپنے رزق کا سبب گردانتے ہیں ، اسی طرح مسلمان بھی یہی سب کرتے ہیں۔ اسی طرح بتایا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ مذہب تو سب ایک ہی ہیں۔ مذہب کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کا کام بعد کے لوگوں نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ سب کا خون ایک ہے۔ سب ایک ہی ہیں۔ انسانیت اور بھائی چارہ سب سے بڑا مذہب ہے۔ اسی طرح بتایا کہ چندے کے وقت اور جلسے جلوس میں مولوی صاحبان آتے ہیں ؛ لیکن بس وہ چندے لے کر اور جلسے جلوس کرکے چلے جاتے ہیں ، اور پھر سال بھر کبھی لوگوں سے نہیں ملتے۔ ان کی کوئی خبر نہیں رکھتے۔ دوست کہتے ہیں کہ ہم نے خاصی اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی ؛ لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ اسی طرح بتایا کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم اور ہندو لڑکوں سے دوستی کو فخر کی چیز سمجھتی ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتیں ؛ بلکہ اگر کوئی ان کو اس پر روکے ٹوکے ، تو برا مانتی ہیں ، اور کہتی ہیں سب ایک ہیں۔ یہ مسلم ، یہ ہندو ؛ یہ سب نفرت اور انسانیت مخالف باتیں ہیں۔ دوست نے خاص طور پر اس پر فکر مندی کا اظہار کیا کہ ہمارے یہاں توحید پر محنت کی ضرورت ہے ، جو بہ سوء قسمت یہاں ہو نہیں رہی ہے۔
قارئینِ کرام!
میں سمجھتا ہوں ، جس طرح میں مذکورہ باتوں کی قباحت کو سمجھ رہا ہوں ، اسی طرح آپ بھی بہ خوبی سمجھ رہے ہوں گے_ہر شخص پر اپنے گھر خاندان ، گاؤں محلہ ، بستی اور علاقے کی مقدور بھر ذمے داری ہے۔ یہ مشکل ہے کہ کوئی شخص دوسرے علاقوں میں جا جا کر اصلاح و تبلیغ کا کام کرتا پھرے۔ سب سے پہلے ذمے داری علاقے والوں کی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہریانہ عالموں ، مفتیوں اور دعاۃ و مبلغین سے بالکل خالی نہیں ہے۔ یقینا وہاں بھی ایک معتدبہ تعداد مذکورہ نوع کے افراد کی ہوگی۔ انہیں اپنے علاقے کی زیادہ سے زیادہ فکر کرنی چاہیے! اسی طرح تبلیغ کے احباب کو بھی وہاں جانا چاہیے۔ وہاں ان کی ضرورت ہے ، اور وہاں ان کے لیے کام کے بڑے مواقع ہوں گے۔ علاقے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ تبلیغی احباب کو اپنے یہاں مدعو کریں! موقع موقع سے تبلیغی اجتماعات منعقد کروائیں۔ ان شاءاللہ! اس کے اچھے اثرات ظاہر ہوں گے۔ اسی طرح جو حضرات چندے کے موقع پر چندے کے لیے وہاں جاتے ہیں ، انہیں بھی کسی قدر وہاں کے مسلمانوں کی دینی و ایمانی فکر کرنی چاہیے!
(13/9/2024)