پٹنہ: (پریس ریلیز)
ریاست بہار کے ممتاز عالم دین ،شیخ طریقت ،درس وتدریس میں نمایاں کردار کے حامل، نام ونمود اور شہرت سے دور مولانا سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی کا مورخہ ۱۹؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو انتقال ہوگیا، ان کا انتقال عظیم ملی خسارہ اور ملک وملت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے پریس ریلیزمیں کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مولانا تقی الدین فردوسی کا تعلق منیرشریف کے خانوادہ سے تھا۔ ان کے والد محترم حضرت شاہ عنایت اللہ فردوسی اور ان کے عم محترم مولانا شاہ مراداللہ ندوی منیری تھے۔ مولانا فردوسی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت حاصل کی۔ مز ید تعلیم کے لئے مدینہ منورہ گئے، پھر وہاں سے مصر گئے، وہاں کے ممتاز علمائے کرام سے کسب فیض کیا۔ فراغت کے بعد مصر اور سعودی عرب میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے اور تقریباًچالیس برسوں تک وہاں کی علمی سرگرمیوں میں مشغول رہے اوردرس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا بےحد متواضع اور منکسر المزاج تھے ، ان کے اندر اتباع سنت کا ذوق تھا۔ بدعات وخرافات سے اپنے آپ کو دور رکھا اور اچھی زندگی گذاری۔ وہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے، وہ ایک مکمل انسان تھے۔ بڑے خلیق تھے، کسی سے ملتے تو نہایت ہی خندہ پیشانی سے ملتے، ان سے سمیناروں اور ملی اداروں کی علمی مجلسوں میں ملاقات ہوتی، وہ انتہائی خوشی و محبت سے ملتے اور دعائیں دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن وہ اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے زندہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے حسنات کو قبول فرمائے، درجات بلند کرے ، پسماندگان کو صبر جمیل اور ملک وملت کو نعم البدل عطا فرمائے۔