ازقلم: سمیہ بنت عامر خان
جدید دور معاشرے سے جدیدیت اور مارڈن ازم کے گہرے سمندر سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں معاشرے اور سماج سے زیادہ ہمارے گھروں سے باطل نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں سے اخلاقی محاسن کی بنیاد ڈالنی چاہیے کیونکہ صالح گھر کی بدولت ہی صالح معاشرہ و سماج کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔ آج ہمارے گھر اور ہم کہنے کو تو اسلام پسند اور شریعتی اصولوں کے پابند ہیں لیکن ہمیں خود ہمارے نفس کا محاسبہ کرنے کی ضروت ہے ہماری بے ضمیری کو جھنجھوڑ نے کی ضرورت ہے کہ ہم آج کس مقام پر کھڑے ہیں۔ کیا ہم اور ہمارا خاندان بطور مسلمان ایک اسلامی خاندانی نظام کے اہل ہے۔…؟؟
کیا ہمارے خاندانی نظام میں اطاعت اللہ اور اطاعت رسول شامل ہے۔۔۔؟؟؟
آج ہمارا خاندانی نظام خود جدیدیت اور مارڈن ازم کے خول میں گھرا ہوا ہے۔ ہم کہنے کو مسلمان ہیں اور کہنے ہی کو اسلامی شریعت اور تعلیمات کے پابند ہیں ۔ ہم بطور مسلمان اخلاق و آداب سے خالی دور ہوتے چلے جارہے ہیں، ہم دو رخی کلچر کو ہمارا شیوہ بنانے لگے ہیں اور ہم دکھاوا پسندی کے دلدادہ ہوتے جارہے ہیں۔ آج ہمارے گھروں، ہمارے جماعتوں، ہماری مجلسوں اور ہمارے مدرسوں اور مسجدوں میں تو اسلام کی باتیں ، قرآن و حدیث کی باتیں ہوتی ہیں لیکن ہم نے اسلام کی تعلیمات کو صرف کہنے اور سننے تک ہی محدود کر رکھا ہے ہم نے کبھی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونےکی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ ہم سمجھتے ہے کہ ہم نے قرآن و حدیث کی دو تین باتیں کرکے اللہ اور اس کی رسول کا حق ادا کردیا۔ لیکن اے نادان، اے غفلت پسند مسلمان تو بھول گیا کہ اسلام کہنے سے زیادہ کرنے کا مصداق ہے۔ آج دنیا میں بد اخلاقی، جھوٹ، بے ایمانی، بدکاری اور یہ جدیدیت کی زندگی کے ہم مسلمان خود ہی ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے اپنے گھروں اور سماج میں وہ کام کیا ہی نہیں جو کرنا تھا۔ جس مقصد کے لئے خدا نے ہمیں خیر امت بنایا اسی کو فراموش کررہے ہیں۔ ہم نے قرآن کو طاقوں پر سجا کر رکھا جب کہ ہمیں اس کی دعوت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت تھی۔ آج کا غیر مسلم طبقہ ہم مسلمانوں کو اسلام سمجھتا ہے ۔ کیا ہم نے ہماری اس طرح کی شناخت سماج میں قائم کی ہے کہ کوئی غیر مسلم ہمارے اخلاق حسنہ سے متاثر ہو ؟ ہم نے صرف دکھاوے کو ہی ہمارا لائحہ عمل بنایا ہمارا طرز زندگی تو نبیوں اور صحابہ کے مثل ہونا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اخلاقی تربیت کا ہی کرشمہ تھا کہ عرب قوم جو جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی مہذب ترین قوم شمار ہونے لگی۔ ہمیں بھی چاہییے کہ لوگ ہمیں دیکھ کر اسلام قبول کرتے لیکن نہیں ہمارا عمل تو محض دکھاوا ہے۔
ہمارے خاندانی نظام محبت و مروت سے خالی ہیں۔ خاندان سے سماج بنتا ہے۔ آج ہمارے خاندانی نظام کی آپسی عداوت اور دشمنیاں ختم ہی نہیں ہوتی تو بھلا ہم سے کیسے محسن اخلاق والا معاشرہ تشکیل پائے گا۔ ہم نے سماج و معاشرے کو وہ دیا ہی نہیں جیسا ہم سے ہمارا اسلام چاہتا ہے۔ یاد رکھیں۔ خاندان انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اگر خاندانی نظام میں موجود افراد کی تربیت درست طریقے پر ہو تو ایک عظیم معاشرہ و سماج وجود میں آتا ہے۔ ہمارے دین اسلام نے قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ اسلامی نظام میں خاندانی نظام میاں بیوی پر منحصر ہوتا ہے۔ جس کا آغاز نکاح جیسے پاکیزہ رشتے سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ کسی بھی شخص کی روح کے لیے اعلی اخلاق اتنے ہی ضروری ہیں جتنا اس کے جسم کے لیے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کے لیے اس اعلی اخلاق کی بنیاد ماں اور باپ کا مضبوط اور اخلاق و آداب سے لبریز رشتہ بنیادی اکائی ہوتا ہے۔ خاندان بالخصوص ماں اور باپ کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ ماں باپ کے آپسی آداب و تمیز اور اخلاق و تعلقات سے اس کی جسمانی افزائش کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی جاری رہتی ہے۔ بچوں اور بڑوں سے بات کرنے کا طریقہ، اٹھنے بیٹھنے کا انداز ، چھوٹے بڑے کے احترام کا طریقہ سیکھتا ہے۔ اگر ہم آپﷺ کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہےکہ آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بہترین سلوک کا معاملہ فرماتے۔ گھریلو کام کاج میں میں ان کی مدد بھی فرما تے اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے اور ان کی دلجوئی کے لیے کھیلتے بھی۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔ شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور بیوی کو شوہر کی اطاعت اور اس کی عزت آبرو اور مال کی حفاظت کا حکم دیا۔ رشتوں کا خیال رکھنے اور صلہ رحمی کی بار ہا تلقین کیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ کہلائے تو ہمیں بھی اس کےلئے کوشش کرنی ہوگی۔ خاندانی سطح پر میاں بیوی بچوں کے سامنے احترام سے ایک دوسرے سے پیش آئیں،ایک دوسرے کو کمتر نہ سمجھے، ایک دوسرے پر اپنا رعب و دبدبہ نہ ظاہر کرے، کسی قسم کی بدگوئی یا گالم گلوچ سے اجتناب کریں، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھے، اپنی انا اور خود غرضی کی چادر سے باہر نکل آئے۔ اسی طرح دیگر رشتہ داروں کے بارے میں بھی اچھی بات کریں۔ ماں باپ بچوں پر غصہ ہونے اور انھیں بلاوجہ مارنے کے بجائے صبر کے ساتھ ان کی شرارتوں کو برداشت کریں۔ گھر کے بزرگوں کا احترام کرے۔ ان کی بات کو اہمیت دیں۔ اور ان کی خدمت کریں۔ میاں بیوی گھر میں ہمیشہ غصے اور چڑچڑا پن کو اپنا شیوہ نہ بناۓ بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھے اور سمجھائے۔ نکاح جیسے خوشحال اور پاکیزہ رشتے کو سماج کے سامنے مثالی رشتہ بناۓ۔ گھروں میں عزت احترام محبت و الفت کے رشتے کو برقرار رکھیں اور بچوں کی تربیت کا نبوی منہج اختیار کریں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے۔