ازقلم: اظفر منصور
آپسی چپقلش کی بنیاد پر ہم انسان قتل و قتال اور لڑائی جھگڑے پر اتارو ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ عقل و حواس کے خلاف فیصلہ ہے، عارضی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ دشمن کو کنارے کر کے اس کے خون سے ہم نے سکون کے پل خرید لئے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برخلاف کچھ اور ہی رنگ دکھاتی ہے، ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے بھی یہی سوچا تھا کہ ہابیل کو قتل کر کے واقعی وہ چین و سکون سے رہ لے گا، مگر قتل کے اگلے لمحے ہی اسے دو کوؤں نے رسوا کیا، اور اس عمل نے اسے مستقل تاریخ انسانی کا مجرم اول قرار دیا۔ حجاج بن یوسف کی سفاکی اور ہٹلر کی دہشت گردی پر آج کون نوحہ کناں نہیں ہے؟ دونوں نے سوچا ہوگا کہ اپنی طاقت کا استعمال کر کے ہم ایک بڑا سامراج کھڑا کر لیں گے مگر ملک الموت نے آتے ہی سب کو عبرت نشان بنا دیا۔ اسی طرح ج کل اسر-ئیلی عقلوں میں بھی یہ خبط سوار ہوگیا کہ قتل و قتال کر کے، اہل فلسطین کے خون کو ارزاں کر کے ہم آدھی دنیا کی سلطنت کے مالک بن جائیں گے، اسی لیے یہ موجودہ دہشت گرد ایک کے بعد ایک قتل کرتا جا رہا ہے، باوجود اس کے کہ وہ طاقت کا استعمال کر کے قتل و خون ریزی کے نام پر جس دلدل کو حما-س و حزب-اللہ نیز مسلمانوں کے لیے کھود رہا ہے وہی اس کے چین و سکون کو بھی کھاتا جا رہا ہے، اس دلدل سے اٹھنی والی بچوں کی چیخیں، عورتوں کی آہ و بکا ان ظالموں کی روحوں کو تڑپا تڑپا کر مزید ستم پر اکسا رہی ہے اس خیال کے ساتھ کہ اب سکون نصیب ہو جائے،حالانکہ کسی کو موت کے گھاٹ اتار دینا اور قتل و قتال کی راہ اختیار کرنا مسائل کو ختم نہیں بلکہ مزید جنگ کی آگ بھڑکانے کا کام کرتی ہے، یہاں قدم قدم پر مظلوم کا درد بھوت بن کر ظالموں کو کچوکے لگاتا ہے۔
مسائل کے حل کے دو ہی طریقے خاموشی یا گفت و شنید، اس کے علاوہ جو راستے ہیں ممکن ہے اس میں فتح کامیابی بھی ہو مگر سکون و راحت کا کوئی لمحہ نہیں ہوتا۔ اس لیے امن پسند بنیں اور امن پسندی کو قبول کریں۔