افسانہ: ٹریلر

میں اندھیرے میں بیڈ سوئچ ٹٹولنے لگا۔ میرے دونوں ہاتھوں کو شاید باندھ دیا گیا تھا۔ ہر سمت تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی سیاہ تاریکی میں نے پہلی بار دیکھی تھی۔ میں بری طرح خوف کھانے لگا۔ میرا سارا جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا۔ میں اسی تاریکی میں اپنا سمارٹ فون ڈھونڈنے لگا۔ رات کو سوتے وقت میں نے واٹس ایپ پر سٹیٹس اپلوڈ کیا تھا اور ساتھ میں فیس بک پر اپنی ایک تازہ تصویر بھی اپلوڈ کی تھی۔ اپنے دوستوں کی کمنٹس اور لائکس دیکھنے کے لیے میں بے چین ہو رہا تھا۔ میں دن میں اپنا بیشتر وقت اپنے فون کے ساتھ ہی صرف کرتا ہوں کیونکہ یہی ایک چیز ہے جس سے میں بے انتہا محبت کرتا ہوں۔ اس کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارے آباو اجداد پھیکی پھیکی اور بے رنگ سے زندگیاں جیسے ویران دشت میں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئےہیں۔

میرا فون میری نظروں سے اوجھل تھا۔ مجھ پر ایک طرح کی دیوانگی طاری ہوئی۔ میں اپنے فون کو پاگلوں کی طرح ڈھونڈنے لگا۔ میرے چاروں طرف اندھیرا تھا۔ تاریخ فضا میں حبس تھا، جس سے مجھے گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ میں زور زور سے چیخ کر اپنے بیوی بچوں کو آواز دے رہا تھا لیکن گھر کا کوئی فرد میری صداؤں سے ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔

سیاہ اور گہرے اندھیرے میں اچانک مجھے کچھ ملی جلی آوازیں سنائی دیں۔ ان کے الفاظ سن کر میں ایک دم سے چونک گیا۔ وہ بلند آواز میں کہہ رہے تھے:

” یا اللہ اقبال صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرنا۔ ان کی خطاؤں کو بخش دے۔ میرے مولا کل تک اقبال صاحب ہمارے ساتھ تھے، آج اچانک آپ نے ان کو ہم سے چھین لیا، یا اللہ اقبال صاحب کو عذابِ قبر سے نجات عطا فرما”
ملی جلی آوازوں نے زور سے آمین یا رب العالمین کہا اور یہ آوازیں ایک دم سے خاموش ہوئیں۔

کیا واقعی میں دنیا سے رخصت ہو چکا تھا؟
میرا بے جان جسم معطر کفن میں لپیٹا ہوا تھا۔ میرے پسندیدہ عطر کی مہک لحد میں تحلیل ہو رہی تھی۔ میں لحد کے اندر دفن تھا جہاں ہر سمت گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ میری بیوی، بچے، میرا فون۔۔۔۔۔ میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ میں اس لاچار بچے کے مانند تھا جس کو ابھی ابھی اپنی ماں نے جنا تھا۔ اس کے بعد اس کو نہلا کر ایک نیا جوڑا کپڑا پہنا دیا گیا تھا۔ مجھے بھی شاید اپنے بیٹے یا مسجد کے ملا نے آخری بار نہلایا ہوگا اور پھر اس سفید کفن سے میرے جسم کو ڈھک دیا ہوگا۔
میں واقعی مر چکا تھا۔ میرا دنیاوی وجود ہمیشہ کے لیے مٹ چکا تھا۔ میری بے جان لاش قبر کی تاریکی میں بے یار و مددگار پڑی تھی جو شاید کچھ دنوں بعد سڑ کر خاک ہو جانے والی تھی۔ میں اس اندھیر نگری سے دنیا میں واپس لوٹ جانا چاہتا تھا۔ میری قبر پر صبح سے لوگوں کا آنا جانا برقرار تھا۔ سب لوگ اللہ سے میری مغفرت کے طلبگار تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ ظہر کی اذان فضا میں گونج رہی تھی۔ میں نے سوچا اب نماز ادا کرنے کا وقت آیا ہے۔ لیکن میرا مردہ جسم اب اس قابل بھی نہ تھا کہ اللہ کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہو جاتا حالانکہ دنیاوی زندگی میں متعدد بار میں نماز ادا کرنے سے قاصر رہا تھا۔ کبھی آفس، کبھی گھر، کبھی کسی اور مجبوری کا بہانہ کر کے میں نے اللہ کے ساتھ دھوکا کیا تھا۔ آج۔۔ آج میں نماز ادا کرنا چاہتا تھا۔۔۔

اسی اثناء میں دو حسین چہرے والے خدائی مخلوق میری لحد میں نمودار ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی میرا چہرہ خزاں کے پتوں کی طرح زرد پڑ گیا۔ میں نے ان سے نماز ظہر ادا کرنے کی اجازت طلب کی۔ وہ دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔ اس بھیانک ہنسی سے میرا پورا جسم تھرتھرانے لگا۔ وہ کہنے لگے:

” اقبال۔۔۔۔۔۔ تم اب مر چکے ہو۔ تمہاری دنیاوی زندگی اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ اب روزِقیامت تک تم کو اسی لحد میں قیام کرنا ہے۔ اللہ کے حضور عبادت کرنے کا وقت اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اب حساب وکتاب کا آغاز ہونا باقی ہے۔”

میں دنیاوی زندگی کا حساب دینے کے لیے تیار ہوں۔ پہلے مجھے اپنا موبائل فون دیکھنا ہے۔ مجھے اپنا فیس بک اکاؤنٹ چیک کرنا ہے۔ میں نے رات کو ہی فیس بک پر اپنی تازہ ترین تصویر اپلوڈ کی تھی۔ یہ کہتے کہتے میری لحد میں ایک اسکرین میرے سامنے کھولی گئی, جس پر میرا فیس بک وال کھلا ہوا تھا۔ میری تصویر سو سے زیادہ لوگوں نے لائک کی تھی اور ساتھ میں چند عزیز دوستوں کی خوبصورت کمنٹس بھی تھیں۔ اچانک میری نظر میرے دوست کے وال پر پڑی جہاں میری تصویر کو اپلوڈ کیا گیا تھا, جس پر لکھا تھا:

” میرے عزیز دوست اقبال صاحب کل رات اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ بہت ہی اعلی قسم کے انسان تھے۔ اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے”

یہ تصویر پانچ سو سے زائد لوگوں نے لائک کی تھی، جس کے نیچے ہزاروں کمنٹس بھی تھے۔ یہ تصویر وائرل ہو چکی تھی۔ دراصل انسان کی اصل قدر اس کے مرنے کے بعد ہی کی جاتی ہے۔ میری زندگی میں کبھی میری تصویر پر سو سے زیادہ لائکس نہ ملے تھے اور آج میرے مرتے ہی میری تصویر ایک دم سے وائرل ہو گئی تھی۔

میرے دل میں میرے بیوی بچوں کا خیال آنے لگا۔ یہ سوچتے ہی اسکرین پر میرے گھر کا ماتم زدہ ماحول دکھایا گیا۔ میرے گھر والوں کی حالت غیر تھی۔ وہ ماتم کناں تھے۔ گھر کے صحن میں ایک ٹینٹ لگایا گیا تھا جس میں عورتیں تعزیت کرنے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ میری بیوی کا برا حال تھا۔ اس کے سر کا سائباں ہمیشہ کے لیے اجڑ چکا تھا۔ وہ بلک بلک کررو رہی تھی۔ باقی عورتیں چہ میگوئیاں کرنے میں محو تھیں۔ گھر کے سارے کمرے مہمانوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میرے دونوں بیٹوں کو لوگ تسلی دے رہے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ وہ اب یتیم ہو چکے تھے۔ ان کے سر سے باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھ چکا تھا۔

یہ سارا سماں دیکھ کر مجھے وحشت ہونے لگی۔ میرا کلیجہ اندر سے پھٹ رہا تھا۔ میری سانسوں کی رفتار تیز ہونے لگی۔ میری زبان حلق سے باہر لٹک رہی تھی۔ میں اب کچھ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے اسکرین سے اپنی نظریں ہٹا لیں۔ ایک دم سے اسکرین غائب ہو گئے اور میری آنکھوں کے سامنے پھر وہی گہرا اندھیرا چھا گیا۔

” ہم نے آپ کی فرمائش بجا لائی۔ اب آپ ہمارے چند سوالات کا جواب دیجیے۔ ” خدائی مخلوق مجھ سے مخاطب تھی:

” آپ نے لمبی داڑھی رکھی تھی اور اس کی آڑ میں لوگوں سے بے ایمانی کرتے رہے، رشوت لیتے رہے، نا انصافی سے کام لیتے رہے، آخر اس کی وجہ کیا تھی اقبال”

میں یہ سن کر ذلیل وخوار ہو گیا۔ جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے سادگی سے جواب دیتے ہوئے کہا:

” دراصل مسلمانوں میں لمبی داڑھی رکھنا ایک ڈگری یا سرٹیفیکیٹ کے مترادف ہے۔ لوگ لمبی داڑھی رکھنے والوں کو سچا دین دار مانتے ہیں۔ ان کی عزت کرتے ہیں۔ ان کے فیصلوں کو اندھے عقیدت مندوں کی طرح تسلیم کرتے ہیں۔ ان کو محلہ اور مسجد کمیٹیوں کے سربراہ منتخب کرتے ہیں۔ پھر داڑھی رکھنے والا انسان خود کتنا ہی نیچ کیوں نہ ہو لیکن لوگوں کی نظروں میں وہ ایک متقی اور ایمان دار انسان ہوتا ہے۔ میں نے بھی اسی منافقت کو اپنا کر لمبی داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا اور لوگوں کو بے وقوف بناتا رہا۔ میں نے داڑھی کی آڑ میں رشوت لی، گورنمنٹ کے خزانوں کو لوٹا، غریبوں کے ساتھ حق تلفی کی، سود کھایا۔ غرض میں نے وہ سب کچھ کیا جو بیشتر لمبی داڑھی رکھنے والے میرے ساتھی کیا کرتے تھے۔

” آپ نے اپنی بیوی سے بے وفائی کیوں کی؟ اور اس کے در پردہ باقی عورتوں سے اپنے جسمانی تعلقات قائم کیے” یہ خدائی مخلوق کا دوسرا سوال تھا۔

” میں اپنی بیوی سے بے وفائی کرنے پر مجبور تھا۔ میں اپنی بیوی سے اکتا چکا تھا۔ میری بیوی کی سیرت کا کوئی جواب نہ تھا لیکن اس کی صورت سیدھی سادی تھی۔ وہ ایک معمولی شکل و صورت والی عورت تھی۔ میں نے محض گھر والوں کا دل رکھنے کے لیے اس سے شادی کی تھی۔ اس لیے اس کے در پردہ میں نے آفس میں ایک جواں سالہ خوبصورت عورت کے ساتھ اپنے جسمانی تعلقات قائم کیے، جو میری تسکین کا سامان مہیا کرنے لگی۔ ہوس انسان کی فطرت میں خون کی طرح دوڑتی ہے اور جب یہ خون گرم ہوتا ہے تو انسان کا شعور صحیح اور غلط میں فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔۔ ہاں۔۔ ہاں میں نے اپنی بیوی سے بے وفائی کی ہے۔میں سزا کا مستحق ہوں”

میرے ڈھیٹ جواب سن کر وہ ہنسنے لگے۔ انہوں نے مزید کہا:

” اللہ نے تمہیں سب کچھ عطا کیا۔ تم سماج میں ایک عزت دار اور دین دار انسان کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر تم نے اپنے خالق و مالک سے بے وفائی کیوں کی؟ تم نے اللہ کے احکامات سے نافرمانی کیوں کی؟ تم اپنی قبر اور آخرت کی فکر کو بالاۓ طاق رکھ کر مختصر سی دنیاوی زندگی کو عیش و عشرت سے گزارنے میں مگن رہے۔۔ آخر کیوں؟”

میرے پاس ان کے سوالوں کے جوابات نہ تھے۔ میری ہمت، میرا حوصلہ سب ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے قبر کی فکر ستانے لگی، وہی تاریک لحد جس کے گہرے اندھیرے میں مجھے قیامت کی صبح تک رہنا تھا۔ میں نے آب دیدہ آنکھوں سے جواب دیا:

” میں نے دولت اور شہرت کی خاطر اپنے اللہ سے نافرمانی کی۔ میں اپنے خالق کے احسانات کو ہمیشہ نظر انداز کرنے لگا۔ دراصل میں دنیاوی لذتوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ میں اپنے خالقِ حقیقی کو پہچان نہ سکا۔ میں دنیاوی کاموں میں اس قدر مصروف ہو چکا تھا کہ میں اللہ کے حضور چند سجدے ادا نہ کر پایا۔ جب انسان اللہ کو بھول جاتا ہے تو لازمی ہے کہ خدا بھی پھر اس بندے کی فکر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ میں نماز کی اہمیت کو نظر انداز کرتا گیا، ماہِ رمضان میں بیماری کا بہانہ کر کے روزے ادا کرنے سے قاصر رہا، گھر کے اخراجات اس قدر بڑھ چکے تھے کہ میں نے صدقہ و خیرات کی افادیت کو لازمی نہ سمجھا۔ میں محض نام کا مسلمان تھا۔ کلمہ گو ہو کر بھی کلمے کے مفہوم سے بے خبر رہا۔ میرا ایمان اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ قبر کے عذاب اور آخرت کے دن پر میرا بھروسہ قائم نہ رہا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ شاید مرنے کے بعد انسان کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے اور یہ عالم ارواح، یومِ آخرت، عذاب قبر وغیرہ سب مذہب کا ایک حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جو انسان کو خوف کی میزان میں تولتا ہے، جس سے انسان گناہ کرنے کی صلاحیت سے کچھ حد تک اپنے آپ کو دور رکھتا ہے۔ میں نے دنیاوی عیش و عشرت کی خاطر اپنی آخرت کو بربادی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ میں جہنم کا مستحق ہوں”

خدائی مخلوق میری لحد سے ایک دم غائب ہو گئی اور میری ہر سمت پھر وہی گہرا اندھیرا چھاگیا۔ میری لحد سے اچانک ایک کھڑکی نمودار ہوئی جہاں سے ناقابل برداشت گرم ہواؤں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں نے ایک زوردار چیخ ماری۔

گھر کے سب افراد خانہ دوڑ کر میرے کمرے میں آگئے۔ میری حالت متغیر تھی۔ میرا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ میری آنکھوں سے آنسوں سیلاب کی طرح امڈ رہے تھے۔ میں کچھ بھی کہنے کی حالت میں نہ تھا۔ میں اپنے دونوں بیٹوں کو گلے سے لگا کر زور زور سے رونے لگا۔۔۔۔

افسانہ نگار : فاضل شفیع بٹ
انت ناگ، جموں و کشمیر
رابطہ: 9971444589

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے