شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ”انفاس العارفین“ میں بہار کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ”بلدۂ بہار کے مجمع علماء بود“ (ص62)ابتدائی دور سے ہی بہار علماء،صلحاءاور صوفیاء کا مرکز رہا۔
صوبہ بہار میں جن شہروں کو تاریخی،علمی،تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے مرکزیت اور شہرت حاصل رہی،ان میں ایک ضلع ”ویشالی“کا بھی نام ہے،حضرت عیسی مسیح سے تقریبا چھ سو سال قبل اسی علاقے نے تہذیب و تمدن،ثقافت و کلچر کے ساتھ جہانبانی اور جہانگیری کا جمہوری نظام دنیا کو عطا کیا تھا،بودھ جی نے اسے میدان عمل بنایا،مہابیر یہاں پیدا ہوئے اور اشوک نے اپنے مشہور زمانہ ستون کے ذریعے اسے ایک تاریخ عطا کی تھی،اور بقول سچیدا نند سنہا:
”یہ علاقہ اسلامی تاریخ کا موہن جوداڑو ہے۔
شیخ محمد بن علامنیری عرف قاضن شطاری نے جو ویشالی گڑھ پر آرام فرما ہیں، اور میرا جی کے نام سے متعارف ہیں،جن کی خدمات کا تذکرہ قاضی اطہر مبارک پوری نے دیار یورپ میں علم اور علماء میں تفصیل سے بیان کیا ہے،اسی زمین کی زینت ہیں،آپ نے یہاں توحید و معرفت کےجام چھلکائے تھے اور اللہ کی ربوبیت معبودیت و مسجودیت کے مشہور کن نغمے گائے تھے،اسی طرح ابو الفتح ہدایت اللہ سرمست کے سوز دروں نے اس علاقے کو بقعہ نور بنا رکھا تھا“۔(تفصیل کے لیے دیکھیے حضرت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی کتاب تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی)
حضرت بازیدنوراللہ مرقدہ‘ کے روحانی وارث سید شاہ مخدوم اولیاء کی آمد سے صوبۂ بہار کا ایک مردم خیز علاقہ ابابکر پور ،ضلع ویشالی سے متصل ایک چھوٹا سا خطہ’’ چک اولیاء‘‘ روحانیت کا مرکز اور مرجع خلائق بنا۔ حضرت مخدوم اولیاء کو اللہ رب العزت نے بے پناہ مقبولیت عطا کی ، آپ کی دسویں پشت میں سید شاہ محمد ابراہیم ہوئے، جن کے تین صاحبزادے شاہ منظورالحق، شاہ بدرالحق اور شاہ شمس الحق پیدا ہوئے۔ یہ تینوں ’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘ کے مصداق ہوئے۔
شاہ بدرالحق اپنے والد ماجد کی اجازت سے مدسہ قرآنیہ، سمرا، چمپارن، بہار تشریف لے گئے اور وہاں کے مشہور حافظ وقاری جو حافظ بادشاہ کے نام سے معروف تھے، ان کی سرپرستی اور شاگردی میں حفظ مکمل کیا اور کئی دور بھی کئے۔ گھر آنے کے بعد حضرت الحاج احمد میر رحمۃ اللہ علیہ (بانی مدرسہ احمدیہ ابابکر پور) کے حکم سے مدرسہ ہٰذا میں استاد الحفاظ متعین ہوئے۔ آپ کے مشہور شاگردوں میں حافظ عبدالقدوس منڈئی اور حافظ حبیب الرحمٰن گوریہار وغیرہ ہوئے۔
شاہ بدرالحق مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں چند سال تدریس کے بعد موضع چک نصیر ،پاتے پور ،ویشالی چلے گئے، جہاں تعلیم وتدریس میں مصروف ہوگئے اور ۱۹۵۱ء میں رمضان المبارک کی ۲۷؍ ویں شب تراویح پڑھاتے ہوئے اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکا عطا کیا، جن کا نام ”ابوالخیر“رکھا گیا۔ جن کی پیدائش یکم دسمبر۱۹۴۸ءہے۔تین سال کی کم عمری میں والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کی کیا حالت رہی ہوگی ،آخری وقت میں کسی نے ہمت کرکے پوچھا کہ
"بچوں کو کس کے حوالے کرکے جارہے ہو؟”
جواب ملا: ”اللہ کے سپرد کررہے ہیں“
شہید نازش عشق، عاشق قرآن کا یہ جملہ حضرت مولانا سیدابوالخیر جبریل کے لئے اسرار خداوندی بن کر سہارا دیتا رہا۔
والد محترم کے انتقال کے بعد دادا شاہ ابراہیم رحمہ اللہ جو علاقہ کے پیر طریقت تھے، اپنے ساتھ حلقۂ ارادت میں لے جاتے رہے۔ آپ نے تعلیمی سلسلہ کا آغاز دادا جان کی سرپرستی میں کیا اور مولوی تک کی تعلیم وتربیت اپنے چچا حضرت مولاناسید محمد شمس الحق (سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر،بہار)، قاری صغیر احمد اور مولانا سرورالحق گوریہار کی سرپرستی میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ،ویشالی سے حاصل کی۔ مدرسہ احمدیہ میں جب بھی دینی و روحانی سہ روزہ پروگرام ہوتا ، تو علاقے کے لئے مثالی اجتماع ہوتا ۔ عورتوں کے لئے الگ انتظام اور مردوں کے لئے الگ،اور سب سے بڑی خصوصی بات یہ ہوتی کہ بانی مدرسہ حضرت الحاج احمد میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا تکیہ رکھوا دیتے اور بڑے بڑے علمائے کرام جب وعظ فرماتے تو ایک نظر قطب زمانہ احمد میر کی طرف تو دوسری نظر حضرت جبریل کی طرف۔
اظہار تشکر کے طور پر حضرت مولانا ابوالخیر جبریل خود کہا کرتے ہیں کہ:
’ ’یوں تو خاندان سے لے کر عوام الناس تک میری کوئی حیثیت نہیں تھی ،لیکن قطب زمانہ کی نظر عنایت نے مجھے بہت کچھ بنادیا‘‘۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ مدرسہ عزیز یہ بہار شریف تشریف لے گئے اور عالمیت کی سند سال۱۹۶۳ ء میںحاصل کی۔ وہاں کے اساتذہ میں مولانا مفتی عبدالمتین سہروردی، مولانا عبداللہ ادیب بہاری، مولانا رونق استھانوی وغیرہ رہے۔ فاضل فارسی کا امتحان مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ سے پاس کیا۔ فراغت کے بعد اپنے مشفق استاد قاری صغیر احمد رحمہ اللہ کے حکم سے مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں سات ماہ تک فارسی کا درس دیا۔ اس کے بعد مدرسہ عظمتیہ لوور چیت پور کلکتہ میں ایک سال مدرس رہے۔ ۱۹۶۵ء میں حضرت مخدوم الاولیاء، شیخ زکریا علیہ الرحمہ کی زیارت کے لئےجامعہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے۔ پندرہ روز تک حضرت کے ساتھ فیضیاب ہوتے رہے،سال۱۹۶۶ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی کی جماعت کے ساتھ پروفیسر نادر خان کی سرپرستی میں دعوت وتبلیغ کے لئے نکلے، اسی میں ورلڈ اسلامک مشن لندن جانے کے لئے حضرت مولانا کا انتخاب ہوا، لیکن والدہ کی مجبوری اور معذوری کی وجہ سے نہیں جاسکے۔۱۹۶۷ء میں شری رام چندر ہائی اسکول پاتے پور ،ویشالی جو علاقے کا مشہور اسکول تھا اور ہے، اردو فارسی استاد کی تقرری کے لئے انٹرویو ہوا ، خدا کی مدد شامل حال رہی ، امتیازی طور پر کامیاب ہوئے اور باضابطہ تعلیم وتدریس کا سلسلہ چل پڑا۔ ویسے تو انگریزی ماحول ملا، لیکن خاندانی وراثت کے طور پر اور بزرگوں کی شفقت کی وجہ سے دین کا غلبہ رہا او دعوت وتذکیر کا سلسلہ چلتا رہا۔ مبتدعین کی طرف سے مخالفت شدید رہی ،لیکن نصرتِ خداوندی اور بزرگوں کی شفقت کے اثرات ظاہر ہوتے رہے۔ پھر ۱۹۹۵ء میں آپ کا تبادلہ ملٹی پرپس ہائرسکنڈری اسکول دوارکا ناتھ مظفرپور ہوگیا اور وہیں سے ۲۰۰۸ء میں سبکدوش ہوگئے۔
حضرت مولانا دامت برکاتہم کو روحانی اعتبار سے حضرت احمد میررحمۃ اللہ کی علیہ سرپرستی رہی۔ اس کے بعد مخدوم الملک حضرت مولانا زکریا علیہ الرحمۃ کی خصوصی توجہ ، پھر قطب الاقطاب حضرت امیر شریعت رابع سید شاہ منت اللہ علیہ الرحمۃ کی نظر عنایت رہی ، حضرت امیرشریعت مولانا ابوالخیر صاحب کو فرشی جبرئیل کے نام سے ازراہِ شفقت پکارتے تھے۔ اس کے علاوہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب نوراللہ مرقدہ‘، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نوراللہ مرقدہ‘، حضرت مولانا منظور نعمانی نوراللہ مرقدہ‘، حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی رحمۃ اللہ علیہ سے تعلقات اور ملاقات کا سلسلہ رہا۔ بقول خود:
اُحِبُ الصَّالِحِیْنَ وَلَسْتُ مِنْہُمْ
لَعَلَّ اللہَ یَرْزُقُنِیْ صَلَاحاً
پامالیِ گل سے نہیں جاسکتی ہے خوشبو
روندے ہوئے پھولوں کی مہک اور بڑھے گی
المختصر حضرت مولانا سید ابوالخیر جبریل علمی خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد شمس الحق نوراللہ مرقدہ‘ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے بھتیجا ہیں۔ علاقے میں حـضرت ’’مولانا جبریل صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ومعروف ہیں۔ اپنی سیدھی سادی زندگی ،ایمان افروز پندونصیحت اور دعوت وتبلیغ سے لوگوں کے قلوب میں محبت رسول ،جذبۂ اسلام اور زہدوتقویٰ کی شمع روشن کررہے ہیں۔
مدرسہ اسلامیہ اماموری، پاتے پور، کے صدر ہیں ،جب کہ مدرسہ عظمتیہ موسیٰ پور اور مدرسہ تعلیم القرآن بہوآرہ کے سرپرست ہیں ۔ آپ نے شاعری کا اچھا خاصا ملکہ پایا ہے۔یہ الگ سی بات ہے کہ شاعری آپ کا مشغلہ نہیں ہے۔ میرے برادرخرد عزیزم محمد صدرعالم ندوی سلمہ‘ نے آپ کی شاعری کو جمع کیا ،جو’’ کلام ِجبریل‘‘ کے نام سے زیورطبع سے آراستہ ہوچکی ہے۔
آپ نے شاعری میں اصلاح مدرسہ عزیزیہ بہاد شریف میں مولانا رونق استھانوی سے لی،ان کی شاعری صاف ستھری ہے، بھاری بھرکم الفاظ سے بچتے ہیں،عام طور سے بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں۔آپ نے حمد نعت،منقبت،سلام،غزل اور شہر آشوب لکھا ہے،اسی طرح ضلع ویشالی کے اکثر مدارس کا ترانہ آپ ہی نے لکھا ہے، آئیے کچھ نمونہ پیش کرتے ہیں:
حمد
خدائے پاک کی حمد و ثنا میری زباں پر ہے
کہ جس کا فضل مخلوقات اور کرو بیاں پر ہے
عیاں ہے پتے پتے سے تری حکمت تری صنعت
ترا احسان جہاں پر اور ہر اک انس وجاں پر ہے
زمیں سے آسماں تک،آسماں سے عرش اعظم تک
کہ جس کا فضل مخلوقات اور کرو بیاں پر ہے
نعت
تو سرور کونین ہے نبیوں کا نبی ہے
تخلیق دوعالم کی تیری دم سے ہوئی ہے
مخلوق میں شامل ہے توخالق سے بھی واصل
محبوب خدا ہے شہ مکی مدنی ہے
ہے صدر نشیں تخت خلافت کا بلا شک
یہ شان قناعت کے زمیں فرش نبی ہے
ہے آپ کی رفعت حد ادراک سے برتر
کیا مرتبہ سرکار کا اللہ غنی ہے
قطعہ
ہر دور میں انساں کو جس چیز کی حاجت ہے
قران کی آیت ہے سرکار کی سنت ہے
اولاد محمد سے جس کو بھی عداوت ہے
کم ظرف ہے، ناداں ہے اور لائق نفرت ہے
ترانہ مدرسہ
مصدر علم و یقین ہے مدرسہ اسلامیہ
مخزن دین مبین ہے مدرسہ اسلامیہ
درسگاہ احمد مرسل کی نسبت کے طفیل
چشمہ اسرار دیں ہے مدرسہ اسلامیہ
دوستو یہ گنبد خضرا سے آتی ہے صدا
مرحبا کتنا حسین ہے مدرسہ اسلامیہ
حضرت قیوم نے پودا لگایا تھا یہاں
باراور شجر دیں ہے مدرسہ اسلامیہ
شمس حق اور حضرت منت کے شمۂ فیض سے
منظر خلد بریں ہے مدرسہ اسلامیہ
آسماں کو رشک اے جبریل اس پہ کیوں نہ ہو
ایسی پاکیزہ زمیں ہے مدرسہ اسلامیہ
مشہور و معروف ناقد، ماہر اقبالیات ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے مولانا کی شاعری پر لکھا ہے:
”مولانا کی شخصیت اور شاعری دونوں میں انتہا درجہ کی سادگی نظر آتی ہے،مولانا کی جذبات اور خیالات سیدھے سادے ہیں،اور ان کی زبان اور انداز بیان بھی سادہ ہے۔مولانا کی نعت محبت رسول اور محبت اسلام کے جذبات میں ڈوبی ہوئی ہیں،مولانا اپنی نعتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اوراوصاف حمیدہ کا ذکر جب کرتے ہیں تو قرآن و حدیث کے الفاظ و مطالب کو سامنے رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتوں میں حضور کی شخصیت اور سیرت کے جو نقوش ابھرے ہیں،وہ قرآن و حدیث سے مکمل مطابقت اور ہم آہنگ ہیں”۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حضرت کا سایہ تادیر قائم رکھے اور امت کو فیض پہنچتا رہے، بارک اللہ فی حیاتہم۔
موصوف کا رابطہ نمبر: 9386183293
تحریر : (مولانا) محمد قمر عالم ندوی
استاد: مدرسہ احمدیہ ابابکرپور، ویشالی،بہار
رابطہ نمبر : 9931791773