جماعت اسلامی کی تحریک میں مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی اور ان کے رفقاء کا فکر انگیز اور مستند لٹریچر پچھلی آٹھ دہا ئیوں سے مختلف تصورات ، باطل نظریات کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔
یہ سارا لٹریچر کتابوں اور لائبریریوں میں الماریوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ عوام نہ اس لٹریچر کو بڑے پیمانے پر خریدتے ہیں نا عوامی سطح تک اس کا وسیع تعارف ہواہے ۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں آن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
سوال ہے کہ
آج ڈیجیٹل ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور ابلاغ Communication کے دور میں اسے گھر گھر کیسے پہنچایا جا سکتا ہے؟
سوشل میڈیا دراصل Mass Media ہے اس سے استفادہ کرنے والے 2.7 ارب سے بھی ذیادہ لوگ ہیں ۔ڈئجیٹل انقلاب نے اشاعت کی صنعت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔انٹرنیٹ سروس تقریبا مفت یا بہت معمولی قیمت پر ہر جگہ موجود ، سری الحرکت ،ہر وقت ،ہر شخص کی مٹھی میں موجود ہے۔اس سہولت کے بارے میں
آپ کیا سوچتے ہیں؟ سوشل میڈیا کا بطور نعمت استعمال تعلیم،مذہبی ،سماجی سیاسی،معاشی سطح پر کیسے کیا جائے؟ آپ کا کیا رول ہے اور مثبت فکری کوشش؟ اسے کیسے انجام دیا جانا چاہیے؟؟؟
آن لائن پلیٹ فارمز معلومات اور علم کی ترسیل میں معین و مددگار ہیں۔یہ مواصلات و ابلاغ کی ایک Dectionary ہے جو انٹرنیٹ سے پہلے موجود نہیں تھی۔
فکر مودودی اور تحریک اسلامی کے عظیم لٹریچرکی ہر زبان میں اشاعت کے لیے اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں تو اپنی صلاحیت اور سوشل میڈیا اور اس کے متنوع پلیٹ فارمز،ٹولز کے ذریعے عمل میں لائیں ۔ تجدیدو احیاءاسلام کی ہمہ گیر اور عالمگیر ذمہ داری نبھانے کے لیےان سارے وسائل کو دعوت وتبلیغ اور اصلاح احوال امت کے لیے تحریک اسلامی کے لٹریچر کے ذریعے کس طرح مفید اور ثمر آور بنایا جاسکتا ہے۔ نئے بیانیے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
واٹس ایپ ،فیس بک،Social Networks,Discussion Forums,weblog,Tiktok,you Tube,Sound Cloud,Snapchat,Telegram,we chate,Review, سوشل میڈیا کے لیے فعال گروپ بن کر اس کی ترسیل فرمائیں۔ebkks,Audio books ,kindal کی طرز پر
آپ ایسی ویب سائٹس،گروپ ،کے لنکس بھی بھجوائیں اور ویڈیوز اور کلپس بھی۔ دیگر زبانوں میں کیے گیے تراجم کی معلومات بھی۔اس طرف بہت ہی کم کام ہوا ہے۔اس میدان میں تیاری اور منصوبہ بند جدو جہد کی ضرورت ہے۔
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
کتنے لوگ کتاب پڑھ رہے ہیں؟خرید کر پڑھنے والے ویسے بھی تھوڑے ہیں۔مفت تقسیم کا حاصل کچھ نہیں کہ لینے والا ورق گرادنی بھی نہیں کرتا اور پڑی رہتی ہے کتاب کسی کونے کھدرے میں ۔ لائبریریوں سے بھی بہت کم کتابیں پڑھیں جارہی ہیں ۔ اداروں اور پبلیشرز کے مزے ہیں کہ ان کا دھندہ مختلف اسکیموں کے تحت چل رہا یے ۔ مہمات میں کتابوں کو خرید کر مفت تقسیم کیا جارہا ہے اور پبلیشنگ اداروں کو تقویت پہنچائ جا رہی ہے ۔اسلامی کتابوں کے ادارے دینی فکر کے نام پر اپنی روزی روٹی کا بندوبستی کیے ہوئے ہیں ۔
ایک کتاب میلے میں بچوں کے کامکس ،ڈرائینگ،کرافٹ کی کتابیں 300روپے فی کلو اور دیگر کتابیں 200روپے کلو بکتی دیکھی گئی۔مذہبی کتا بوں کے خریدار ویسے ہی کم ہیں۔
ایک فیر کی رپورٹ آئی ہے کہ یہاں لگے کتابوں کے اسٹال ویران پڑے رہیے ۔کتابیں بہت کم فروخت ہوئیں اور ساری بھیڑ کھانے کے اسٹالوں میں نظر آئ۔کتابوں کی قیمت دیکھیے،جتنے صفحات اتنی قیمت اور کچھ تو اس سے زیادہ مہنگی ۔یہ مذہبی کتابوں کا حال ہے فنی اور اکیڈمک کا نہیں۔
ممبئ اردو کتاب میلے میں دیکھا کہ رضا اکیڈمی کے اسٹال پر ضخیم موٹی کتا بوں کی کئی کئی جلدوں کے سیٹ بہت ہی ارزاں قیمت پر بہت بڑی تعداد میں فروخت ہورہے ہیں ۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نظریے کے فروغ وفکر کی اشاعت کے لیے کیا جارہا ہے۔آپ بھی کریں۔
بھئی یہ دور تو جادو کی ڈبیہ موبائل کا ہے اور سب اس کی زلف کے اسیر ہیں۔کون جاتا ہے لائبریری اور کتنے کرتے ہمارے لٹریچر کی تلاش وبسیار۔
موبائل اور کنڈل نے علم کو گویا ہتھیلیوں پر رکھ دیا ہےجہاں انگلی کے ایک کلک پر لائبریریاں اور مطلوبہ کتاب کے صفحہ سامنے۔اس دوڑ میں اگر جدید ذرائع کا استعمال نہیں کیا گیا تو رہ جائیں گے پیچھے اور دعوت،فکر،مشن،Vision کے پھلنے پھولنے کے مواقع ہوں جائیں گے گم۔ملک کے نجات دہندہ بن کر اٹھ کھڑے ہونے والے،اخرجت للناس،شھداءعلی الناس ،قوامین بالقسط،اقامت دین کے فعال متحرک درد مند گروہ اپنے نصب العین کی ترویج واشاعت میں اپنے لٹریچر کی پی ڈی ایف کو استعمال کرنے میں کیوں مخمصے اور اندیشوں کا شکار ہیں؟
ویسے بھی اس فکر کو عوامی بنانے کے لیے متنوع اور اختراعیInnovative ذرائع اختیار کرنے کی ہم دعوت دیتے ہیں۔اس کے لیے عوامی راستے اختیار کرنے پڑیں گے ۔ہمیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ہم اپنے قائم کردہ پبلیشنگ اداروں سےتجارت کا نفع دیکھتے ہیں یا دعوت؟ہم بھی دوسرے اداروں کی طرح ذیادہ سے ذیادہ کمانا چاہتے ہیں! یا نصب العین کا فروغ؟
کتمان حق کرتے ہوئے علمی ،فکری ،دعوتی خزانے پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں؟
کیا ہم نہیں چاہتے کہ اپنی فکر ،دعوت ،نظریہ کی بڑے پیمانے پر ترسیل اور اشاعت ہو؟
ممکن ہے کچھ لوگ کہیں گے ،کہ سوشل میڈیا پر PDF میں پڑھی جانے والی کتاب کے دور رس اثرات کم ہوتے ہیں۔ کتاب کی Hard copy کی ورق گردانی ،نشانات لگانا اور اس کا لمس ایک سرور دیتا ہے۔اس سے انکار نہیں۔
تحریک اسلامی کے Visionاور اشاعت اسلام میں جدید ذرائع کا استعمال میں ہفتہ وار دعوت کے جتنے خریدار ہوں گے ان سے دس گنا زیادہ لوگ اسے دنیابھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذرائع سے پڑھ لیتے ہیں ۔یہی صورت حال زندگی نو ،تحقیقات اسلامی عالمی ترجمان القرآن ،افکار ملی اور دیگر میگزین کی ہے۔
برقی کتاب کو آپ لوڈ کرنے پر پبلیشر اسے اپنے حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔البتہ جس مصنف کی سیکڑوں کتابوں کے پچاسوں ایڈیشن شائع کرتے ہیں اسے یا اس کے ورثہ کو کتنی ایمانداری سے اس کا حق رائلٹی دیتے ہیں ،یہ تو لینے اور دینے والے ہی بہتر جانتے ہیں۔
فکری ملکیت Intellectual property وفات کے پچاس /ساٹھ سال بعد ختم ہو جاتی ہے۔ پر اسے شائع کرنے ،پی ڈی ایف بنانے کی پابندی بھی ختم ۔ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب لکھتے ہیں کہ کوئ شخص کتاب کی ہارڈ کاپی خریدتا ہے یہ اس کا حق ملکیت Right to onership یا حق استعمال right to usebility پر کوئ قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔چاہیے وہ خود پڑھے یا لائبریری میں رکھ دے جسے کئی لوگ پڑھ لیں یا اس کی کچھ کاپیاں فوٹو نکلوا کر تقسیم کردے۔
کیا کیجیے کہ موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا نے بہت کچھ نگل لیا ہے اور اب بڑے بڑے پبلیشرز اپنی کتا بوں کی e book ،Student Edition اور پی ڈی ایف ایڈیشن مختلف اسکیموں کے ساتھ پیش کر رہیے ہیں .ان کی برکت سے مطالعہ کی رفتار میں خوش گوار تیزی آگئی ہے۔۔اسلام کے نام پر اور مسلمانوں اور کیڈر کے مالی تعاون سے قائم کردہ اداروں کو ان جدید ابلاغ کےذرائع کا استعمال کرنا چاہیے اورکرنا بھی پڑے گا۔دقیانوسیت اور عہد پارینہ سے چپکے رہنا عبث کام ہے۔
پی ڈی ایف کتابوں کی شرعی حیثیت پر ڈاکٹرحافظ زبیر صاحب کی کتاب بھی پی ڈی ایف ترسیل کرنے کی ہمت افزائی کرتی ہے ۔
بس ایک ثبات کو ہی تغیر نہیں زمانے میں
تحریر: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری