آج بھی لال قلعہ، تاج محل، جامع مسجد دہلی، کے علاوہ بے شمار آثار قدیمہ ہندوستان میں مغل سلطنت کی تاریخ کا امین ہے. مورخین لکھتے ہیں ہیں” مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ علم وادب، حوصلہ وہمت اور زہد وتقوی کے مظہر جمیل ’’ابوالمظفر محی الدین اورنگ زیب نے 49 سال تک 15کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغل سلطنت اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انہوں نے تقریباً پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کل GDP کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان (برطانیہ) کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں "جدوناتھ سرکار” جیسے تنگ نظر، متعصب فرقہ پرست اور حقیقت بے زار مصنف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ "اورنگزیب کے اقتدار نے مغل حکومت کے ہلال کو بدرِ کامل بنادیا۔” مغلیہ خاندان کا درویش صفت شہنشاہ کا نام محی الدین تھا، ان کے والد شاہجہاں نے انہیں عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر 1618ء میں مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگزیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے والد جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگانہ میں پھرتے رہے۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں دارا شکوہ اور اورنگزیب عالمگیر کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیر نے دونوں بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔
اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلے بادشاہ ہیں جنھوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری، تیراندازی اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوئے۔ اس دوران انہوں نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔ شاہجہان کی بیماری کے دوران دارا شکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ دارا شکوہ کی اس جلد بازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر دارا شکوہ کے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔
اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کر دیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے.
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ رقمطراز ہیں”برصغیر پر جن مسلم خاندانوں نے حکومت کی ہے، ان میں غالباً سب سے طویل عرصہ مغلوں کے حصہ میں آیا ہے، جو 1526ء سے لے کر 1857ء یعنی تقریباً ساڑھے تین سو سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ اس دوران اگرچہ ہمیشہ پورے خطہ پر مغلوں کو دورِ اقتدار حاصل نہیں رہا اور بہت سے علاقے ان کے قبضہ میں آتے اور جاتے رہے، لیکن تقریباً اس پورے عرصہ میں وہ قوتِ اقتدار کی علامت بنے رہے۔ اس خاندان کے چھٹے فرماں روا اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ 1618ء میں ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہوئے اور 1707ء میں وفات پائی، گویا پورے 90 سال کی طویل عمر پائی، پھر ان کی خوش قسمتی ہے کہ 1657ء سے لے کر 1707ء تک یعنی تقریباً پچاس سال انہوں نے حکومت کی اور ان کے عہد میں ہندوستان کا رقبہ جتنا وسیع ہوا، اتنا وسیع نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ اس کے بعد، یعنی موجودہ افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش کی آخری سرحدوں اور لداخ و تبت سے لے کر جنوب میں کیرالہ تک وسیع و عریض سلطنت کا قیام اسی بادشاہ کی دَین ہے۔ ان کی اخلاقی خوبیوں پر تمام مؤرّخین یہاں تک کہ ان کے مخالفین بھی متفق ہیں کہ یہ تخت شاہی پر بیٹھنے والا ایک درویش تھا، جو قرآن مجید کی کتابت اور ٹوپیوں کی سلائی سے اپنی ضروریات پوری کرتا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت وصیت کی کہ ان کی اسی آمدنی سے تجہیز و تکفین کی جائے۔ ایسے زاہد، درویش صفت، قناعت پسند اور عیش و عشرت سے دور بادشاہ کی نہ صرف ہندوستان بلکہ تاریخِ عالم میں کم مثالیں مل پائیں گی۔ یہ تو ان کی ذاتی زندگی کے اوصاف ہیں۔
اس کے علاوہ اورنگ زیب نے اپنے عہد میں غیر معمولی اصلاحات بھی کیں: ترقیاتی کام کیے، نامنصفانہ احکام کو ختم کیا، اور سرکاری خزانوں کو عوام پر خرچ کرنے اور رفاہی کاموں کو انجام دینے کی تدبیر کی، اس سلسلہ میں چند نکات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔
(1) اب تک عوام پر بہت سارے ٹیکس لگائے جاتے تھے، اور یہ صرف مغل حکمرانوں کا ہی طریقہ نہیں تھا، بلکہ اس زمانہ میں جو راجے رجواڑے اور ان کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں، وہ بھی اس طرح کے ٹیکس لیا کرتی تھیں۔ شیواجی تو اپنے مقبوضہ علاقہ میں چوتھ یعنی پیداوار کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتے تھے۔ اورنگ زیب نے مال گزاری کے علاوہ جو ٹیکس لیتے تھے، جن کی تعداد ۸۰ ذکر کی گئی ہے، ان سب کو غیر منصفانہ اور کسان مخالف قرار دیتے ہوئے ختم کردیا تھا، حالاںکہ ان کی آمدنی کروڑوں میں ہوتی تھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عام طور پر اورنگ زیب کو ہندو مخالف بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن انہوں نے متعدد ایسے ٹیکسوں کو معاف کردیا، جن کا تعلق ہندوؤں سے تھا، جیسے گنگا پوجا ٹیکس، گنگا اشنان ٹیکس اور گنگا میں مردوں کو بہانے کا ٹیکس۔
(2) انہوں نے مال گزاری کا قانون مرتب کیا اور اس کے نظم و نسق کو پختہ بنایا، یہاں تک کہ شاہ جہاں کے دور میں ڈھائی کروڑ پونڈ کے قریب سلطنت کی آمدنی تھی، تو وہ اورنگزیب کے دور میں چار کروڑ پونڈ کے قریب پہنچ گئی۔
(3) حکومتوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی عہدہ دار کا انتقال ہوجاتا تو اس کی ساری جائیداد ضبط کرلی جاتی اور حکومت کے خزانہ میں داخل ہوجاتی، آج بھی بعض مغربی ملکوں میں ایسا قانون موجود ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کے بغیر دنیا سے گزر جائے تو اس کا پورا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے، اورنگ زیب عالمگیر نے اس طریقہ کو ختم کیا، تاکہ عہدہ دار کے وارثوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔
(4) انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ مظلوموں کے لیے انصاف کا حصول آسان ہوجائے، وہ روزانہ دو تین بار دربارِ عام کرتے تھے، یہاں حاضری میں کسی کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی، ہر چھوٹا بڑا، غریب و امیر، مسلمان و غیر مسلم، بے تکلف اپنی فریاد پیش کر سکتا تھا اور بلا تاخیر اس کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے لوگوں، شہزادوں اور مقرب عہدہ داروں کے خلاف فیصلہ کرنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ لیکن اس کے علاوہ انہوں نے دور دراز کے لوگوں کے لیے ۱۰۸۲ھ میں ایک فرمان کے ذریعہ ہر ضلع میں سرکاری نمائندے مقرر کیے کہ اگر لوگوں کو بادشاہ اور حکومت کے خلاف کوئی دعویٰ کرنا ہو تو وہ ان کے سامنے پیش کریں اور ان کی تحقیق کے بعد عوام کے حقوق ادا کردیں۔
(5) اورنگ زیب عالمگیر کا ایک بڑا کار نامہ حکومت کی باخبری کے لیے واقعہ نگاری اور پرچہ نویسی کا نظام تھا، جس کے ذریعہ ملک کے کونے کونے سے بادشاہ کے پاس اطلاعات آتی رہتی تھیں، اور حکومت تمام حالات سے باخبر رہ کر مناسب قدم اُٹھاتی تھی۔ اس نظام کے ذریعہ ملک کا تحفظ بھی ہوتا تھا، عوام کو بروقت مدد بھی پہنچائی جاتی تھی، اور عہدہ داروں کو ان کی غلطیوں پر سرزنش بھی کی جاتی تھی، اس کا سب سے بڑا فائدہ رشوت ستانی کے سد باب کی شکل میں سامنے آیا۔ عام طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں کو رشوت "گفٹ” کے نام پر دی جاتی ہے، یہ نام کرپشن کے لیے ایک پردہ کا کام کرتا تھا، اُس زمانہ میں یہ رقم نذرانہ کے نام سے دی جاتی تھی، جو بادشاہوں کو حکومت کے عہدہ داران اور اصحابِ ثروت کی جانب سے اور عہدہ داروں کو ان کے زیر اثر رعایا کی جانب سے ملا کرتی تھی۔ اورنگ زیب نے ہر طرح کے نذرانہ پر پابندی لگادی، خاص کر نوروز کے جشن پر تمام امراء بادشاہ کی خدمت میں بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے تھے، اورنگ زیب نے اپنی حکومت کے اکیسویں سال اس جشن ہی کو موقوف کردیا اور فرمان جاری کردیا کہ خود ان کو کسی قسم کا نذرانہ پیش نہ کیا جائے۔
(6) عام طورپر جہاں بھی شخصی حکومتیں رہی ہیں، وہاں عوام کو اطاعت و فرماں برداری پر قائم رکھنے کے لیے بادشاہ کے بارے میں مبالغہ آمیز تصورات کا اسیر بنایا جاتا ہے، اسی لیے تیمور لنگ کہا کرتا تھا کہ جیسے آسمان پر خدا ہے، زمین میں وہی درجہ ایک بادشاہ کا ہے، اسی لیے مغلوں کے یہاں بھی ہندوانہ طریقہ کے مطابق ایک طرح کی بادشاہ پرستی مروّج رہی ہے۔ اکبر کے یہاں تو بادشاہ کا دیدار اور سجدہ کرنا ایک عبادت تھا اور ہر دن بے شمار لوگ یہ عبادت بجالاتے تھے، جہانگیر نے سجدہ ختم کیا، لیکن زمین بوسی باقی رہی۔اورنگ زیب عالمگیر نے جھروکا درشن بالکلیہ ختم کردیا، جس میں لوگ صبح کو بطورِ عبادت بادشاہ کا دیدار کرتے تھے اور اس وقت تک کھاتے پیتے نہیں تھے، البتہ اس بات کی اجازت تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند آئے تو اس کی درخواست رَسّی میں باندھ کر اوپر بادشاہ کے پاس پہنچا دی جائے۔
(7) عموماً حکمرانوں کی شاہ خرچی اور حکمرانوں کے چونچلے غریب عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر نے ایسے تکلّفات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی، جیساکہ گزرا کہ شاہی نذرانوں کو بند کیا۔ دربارِ شاہی میں بادشاہوں کی تعریف کرنے والے شعراء ہوا کرتے تھے اور ان پر ایک ذمہ دار ہوا کرتا تھا، جو”ملک الشعرا” کہلاتا تھا، اورنگ زیب نے اس شعبہ کو ختم کردیا۔ وہ اپنی شان میں کسی بڑائی اور مبالغہ آمیز شاعری کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ کا دل بہلانے کے لیے دربارِ شاہی میں گانے بجانے کا خصوصی انتظام ہوتا تھا، قوال اور رقاصائیں گا کر اور ناچ کر بادشاہ کا دل خوش کرتی تھیں اور ان پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی تھیں۔ عالمگیر نے اس سلسلہ کو بھی موقوف کردیا۔ بادشاہ کے لکھنے کے لیے سونے اور چاندی کی دواتیں رکھی جاتی تھیں، عالمگیر نے اس کے بجائے چینی کی دواتیں رکھنے کی تلقین کی۔ انعام کی رقمیں چاندی کے بڑے طشت میں لائی جاتی تھیں، اس طشت کی رسم کو بھی اورنگ زیب نے موقوف کردیا۔ عام طورپر بادشاہوں کی جیب خرچ کے لیے کروڑوں روپے کی آمدنی مخصوص کردی جاتی تھی، آج بھی جمہوری ملکوں میں سربراہِ حکومت کے لیے رہائش، سفر اور ضروریات وغیرہ پر جو رقمیں صرف کی جاتی ہیں اور رہائش کے لیے جو وسیع مکان اور اعلیٰ درجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، وہ گزشتہ بادشاہوں کی شاہ خرچی کو بھی شرمندہ کرتی ہیں، لیکن اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے لیے نہ کوئی عظیم الشان محل تعمیر کرایا، نہ اپنی تفریح کے لیے کوئی باغ بنوایا، اور اپنے مصارف کے لیے بھی محض چند گاؤں کو اپنے حصہ میں رکھا اور بقیہ سارے مصارف کو حکومت کے خزانہ میں شامل کردیا۔
(8) انہوں نے تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دی، ہر شہر اور ہر قصبہ میں اساتذہ مقرر ہوئے، نہ صرف اساتذہ کے لیے وظائف مقرر کیے گئے اور جاگیریں دی گئیں، بلکہ طلبہ کے اخراجات اور مددِ معاش کے لیے بھی حکومت کی طرف سے سہولتیں فراہم کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب کے زیادہ تر فرامین تعلیم ہی سے متعلق ہیں، جن کو ان کے بعض تذکرہ نگاروں نے نقل بھی کیا ہے۔
(9) اس زمانہ میں صنعت و حرفت کو آج کی طرح ترقی نہیں ہوئی تھی اور معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت تھی، اورنگ زیب نے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دی، کسانوں کی حوصلہ افزائی کی، جن کسانوں کے پاس کاشت کاری کے لیے پیسہ نہیں ہوتا، ان کو سرکاری خزانوں سے پیسہ فراہم کیا جاتا۔ حسب ِضرورت کسانوں سے مال گزاری معاف کی گئی۔ جو زمینیں اُفتادہ تھیں اور ان میں کاشت نہیں کی جاتی تھی، ان کو ایسے کسانوں کے حوالہ کیا گیا، جو اُن کو آباد کرنے کے لیے آمادہ تھے۔ اپنے عہدہ داروں کو ہدایت کی کہ کسانوں کو اتنا ہی لگان لگایا جائے، جتنا وہ بآسانی اور بخوشی ادا کرسکیں۔ اگر وہ نقد کے بجائے جنس دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے۔ انہوں نے کسانوں کے لیے کنواں کھدوانے، قدیم کنوؤں کو درست کرانے اور آب پاشی کے وسائل کو بہتر بنانے کو حکومت کی ایک ذمہ داری قرار دیا۔ انہوں نے زمین کے سروے کرنے پر خصوصی توجہ کی، تاکہ معلوم ہو کہ کون سی اراضی اُفتادہ ہیں اور اُن کو قابل کاشت بنانے کی کیا صورت ہے؟ انہوں نے اپنے فرمان میں لکھا ہے: "بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ زراعت ترقی کرے، اس ملک کی رزعی پیداوار بڑھے، کاشت کار خوش حال ہوں اور عام رعایا کو فراغت نصیب ہو، جو خدا کی طرف سے امانت کے طور پر ایک بادشاہ کو سونپی گئی ہے۔” زرعی پیداوار کی طرف اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں فتح ہونے والے بہت سے علاقے ایسے تھے، جہاں کے اخراجات وہاں کی آمدنی سے زیادہ تھے، لیکن پھر بھی کہیں غذائی اشیاء کی قلت محسوس نہیں کی گئی، اگر یہ صورتِ حال نہیں ہوتی تو اتنے طویل و عریض رقبہ پر پچاس سال تک اورنگزیب حکومت نہیں کر پاتے اور وہ عوام کی بغاوت کے نتیجہ میں مملکت پارہ پارہ ہوجاتی۔
(10) اورنگزیب کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اصلاح بھی ہے، انہوں نے بھنگ کی کاشت پر پابندی لگائی۔ شراب و جوئے کی ممانعت کردی۔ قحبہ گری کو روکا اور فاحشہ عورتوں کو شادی کرنے پر مجبور کیا۔ لونڈی، غلام بناکر رکھنے یا خواجہ سرا رکھنے پر پابندی لگائی۔
(11) ہندو سماج میں عرصۂ دراز سے ستی کا طریقہ مروّج تھا، جس کے تحت شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کی چتا کے ساتھ نذرِ آتش کردی جاتی تھی، ہندو سماج میں اُسے مذہبی عمل سمجھا جاتا تھا۔ مغلوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا کہ غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے، اس لیے اورنگ زیب نے قانونی طور پر اس کو بالکلیہ تو منع نہ کیا، لیکن اصلاح اور ذہن سازی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے عہدہ داروں کو ہدایت دی کہ وہ عورتوں کو اس رسم سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی خواتین کے ذریعہ بھی ان کو اس کی دعوت دیں۔ نیز پابندی عائد کردی کہ علاقہ کے صوبہ دار کی اجازت کے بغیر ستی نہ کی جائے، تاکہ کسی عورت کو اس عمل پر اس کے میکہ یا سسرال والے یا سوسائٹی کے دوسرے لوگ مجبور نہ کرسکیں، اس طرح عملاً ستی کا رواج تقریباً ختم ہوگیا۔ غرض کہ اورنگ زیب نے قدیم سڑکوں اور سرایوں کی مرمت، نئی سڑکوں اور مسافر خانوں کی تعمیر، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کو جاگیروں کے عطیہ وغیرہ کے جو رفاہی کام کیے، ان کے علاوہ مختلف دوسرے میدانوں میں جو خدمتیں انجام دی ہیں، وہ بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ ان کی رحم دلی، انصاف پروری اور عفو و درگزر کا ان لوگوں نے بھی اعتراف کیا ہے، جو اُن کو ایک خشک مزاج، ناروادار اور سخت گیر حکمراں قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے حریفوں کے ساتھ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، سنی ہوں یا شیعہ، پٹھان ہوں یا مراٹھے و راجپوت، زیادہ سے زیادہ صلح اور درگزر کی پالیسی اختیار کی، خود شیواجی کو جس طرح انہوں نے بار بار معاف کیا اور اس کے بیٹے کو گلے لگایا، یہ اس کی بہترین مثال ہے۔ مگر افسوس کہ انگریزوں نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم کرنے کی جو منصوبہ بند کوشش کی، اس میں مغلوں کے دورِ حکومت کو عموماً اور آخری پُر شوکت مغل بادشاہ اورنگ زیب (جس کو انگریز اپنے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے) کے بارے میں خصوصاً بڑی غلط فہمیاں پھیلائیں اور بعض مصنفین ان کا آلہ کار بنتے ہوئے ایسی کتابیں تصنیف کیں، جن کو تاریخ اور واقعہ نگاری کے بجائے ناول نگاری اور افسانہ نویسی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، انہوں نے ایسی بے بنیاد باتیں لکھ دیں جن کا حقیقت اور واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اورنگ زیب کو ایک ہندو دشمن حکمراں کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور اس کے لیے اورنگ زیب اور شیواجی کی جنگ کو بنیاد بنایا گیا، حالاںکہ یہ ایک سیاسی جنگ تھی نہ کہ مذہبی۔ اورنگزیب اور شیواجی کی جنگ میں اورنگزیب کا سب سے معتمد کمانڈر ایک راجپوت راجہ جے سنگھ تھا، اور بے شمار راجپوت اور مراٹھے سردار اورنگزیب کے ساتھ تھے اور ان کی فوج میں بھی بڑی تعداد پٹھانوں، راجپوتوں اور شیواجی کے مخالف مراٹھوں کی تھی۔ جو حکمرانوں کے درمیان ہمیشہ ہوتی رہی ہے، نہ اورنگ زیب نے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جنگ لڑی ہے اور نہ شیواجی کا حملہ ہندوؤں کے وقار کی حفاظت کے لیے ہوا ہے۔
اورنگزیب پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو منہدم کیا ہے اور مندر شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اورنگزیب کے عہد میں بعض مندر منہدم کیے گئے ہیں، لیکن اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس کا سبب کیا تھا؟ غیر جانب دار مؤرّخین نے لکھا ہے کہ اورنگزیب نے انہیں مندروں کو منہدم کیا تھا، جو غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے، مثلاً اورچھا میں ببر سنگھ دیو کے بنائے ہوئے ایک مندر کو اورنگ زیب نے منہدم کرا دیا، لیکن اس لیے کہ ببر سنگھ دیو نے اولاً تو ظالمانہ طور پر ابوالفضل کو قتل کیا اور پھر اسی کے سرمایہ سے وہ مندر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ مندر منہدم کیا گیا تو وہاں کے راجہ دیوی سنگھ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یا اس نے ایسے مندروں کو گرایا، جہاں حکومتوں کے خلاف سازشیں کی جاتی تھیں، یا ایسے مندروں کو جہاں غیر اخلاقی حرکتیں کی جاتی تھیں، جیسے بنارس کا وشوناتھ مندر، ڈاکٹر بی ایم پانڈے نے اس کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ” اورنگ زیب جب بنگال جاتے ہوئے بنارس کے قریب سے گزرے تو اس کی فوج میں شامل ہندو راجاؤں اور کمانڈروں نے وہاں ایک دن قیام کی درخواست کی، تاکہ ان کی رانیاں گنگا اشنان کرسکیں اور وشوناتھ دیوتا کی پوجا کریں۔ اورنگ زیب راضی ہوگئے، انہوں نے فوج کے ذریعہ حفاظت کا پورا انتظام کیا، رانیاں اشنان سے فارغ ہوکر وشوناتھ مندر روانہ ہوئیں لیکن جب مندروں سے رانیاں واپس ہوئیں تو اس میں بعض موجود نہیں تھیں، کافی تلاش کی گئی، مگر پتہ نہیں چل سکا، بالآخر تحقیق کاروں نے دیوار میں نصب گنیش کی مورتی کو ہلایا، جو اپنی جگہ سے ہلائی جاسکتی تھی تو نیچے سیڑھیاں نظر آئیں، یہ سیڑھیاں ایک تہہ خانہ کی طرف جاتی تھیں، وہاں انہوں نے دیکھا کہ بعض رانیوں کی عصمت ریزی کی جاچکی ہے اور وہ زار و قطار رو رہی ہیں، چناں چہ اورنگ زیب کی فوج میں شامل راجپوت کمانڈروں نے اس مندر کو منہدم کردینے کا مطالبہ کیا۔ اورنگزیب نے حکم دیا کہ مورتی کو پورے احترام کے ساتھ دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور چونکہ ایک مقدس مذہبی مقام کو ناپاک کیا گیا ہے، اس لیے اس کو منہدم کردیا جائے اور مہنت کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ اکبر کے دور سے صورتِ حال یہ تھی کہ بہت سی مسجدوں کو منہدم کر کے بت خانے بنا دئیے جاتے تھے، ہندو مسلمان عورتوں سے جبراً نکاح کرتے تھے اور انہیں اپنے تصرف میں لاتے تھے۔ جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں بھی یہی صورتِ حال باقی رہی اور خود اورنگزیب کی حکومت کے بارہویں سال تک یہی صورتِ حال تھی، ممکن ہے کہ بعض مندروں کے انہدام کا یہی پس منظر ہو۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمتہ اللہ علیہ جب شاہ فیصل مرحوم کی دعوت پر شاہی محل کے کمرہ ملاقات میں داخل ہوئے تو بہت دیر تک اس کی چھت اور در و دیوار کی طرف حیرت اور استعجاب کے ساتھ دیکھتے رہے۔ شاہ فیصل نے جب اس کا سبب پوچھا تو مولانا یوں گویا ہوئے ”میں نے بادشاہوں کے دربار کبھی نہیں دیکھے۔ آج پہلا تجربہ ہے، اس لیے محو حیرت ہوں۔ میں جس سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں، وہاں اب بادشاہ نہیں ہوتے، لیکن تاریخ کا ایک ایسا دور بھی تھا جب وہاں بھی بادشاہ حکومت کرتے تھے۔ میں نے تاریخ میں ایسے بہت سے لوگوں کا بارہا تذکرہ پڑھا ہے۔ آج اس دربار میں آیا ہوں تو ایک تقابل میں کھوگیا ہوں۔میں سوچ رہا ہوں ہمارے ہاں بھی ایک بادشاہ گزرا ہے۔ آج کا بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما اور افغانستان اس کی حکومت کا حصہ تھے۔ اس نے 52 سالہ عہد اقتدار میں بیس برس گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے۔ اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے۔ خوش حال تھے۔ ان کے لیے آسانیاں تھیں لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا۔ وہ قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں بنا کر گزر بسر کرتا۔ رات بھر اپنے پرودگار کے حضور میں کھڑا رہتا۔ اس کے دربار میں اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتا۔ اس وقت مسلمان حکمران غریب اور سادہ تھے اور عوام خوشحال اور آسودہ۔ آج آپ کا یہ محل دیکھ کر خیال آیا سب کچھ کتنا بدل گیا ہے؟ آج ہمارے بادشاہ خوش حال ہیں اور بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ فلسطین میں بے گھر ہیں۔ کشمیر میں ان کا لہو ارزاں ہے۔ وسطی ایشیا میں وہ اپنی شناخت سے محروم ہیں۔آج میں نے آ پ کے محل میں قدم رکھا تو اس تقابل میں کھوگیا۔”جب سید ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ خاموش ہوئے تو شاہ فیصل کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔ اب ان کی باری تھی۔ پہلے ان کے آنسو نکلے، وہ آپ دیدہ ہوئے اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ اس کے بعد وہ زار و قطار رونے لگے۔ وہ اتنی بلند آواز سے روئے کہ ان کے محافظوں کو تشویش ہوئی اور وہ بھاگتے ہوئے اندر آگئے۔ شاہ فیصل نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کو کہا۔ پھر سید ابوالحسن علی ندوی سے مخاطب ہوکر بولے:”وہ بادشاہ اس لیے ایسے تھے کہ انہیں آپ جیسے ناصح میسر تھے۔ آپ تشریف لاتے رہیں اور ہم جیسے کمزور انسانوں کو نصیحت کرتے رہیں۔
"اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ احمد نگر میں بیمار ہوے اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں وفات پائی ۔ وصیت کے مطابق انہیں خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام جس کا نام اورنگ آباد ہے، وہاں اورنگ زیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ ولی کامل صفت بادشاہ بڑا متقی، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھے ۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے کبھی بھی ایک پائی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر، ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے تھے ۔ سلجھا ہوا ادیب تھے ۔ اُن کے خطوط "رقعات عالمگیر” کے نام سے مرتب ہوئے۔ ان کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کے لیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں "فتاوی عالمگیری” کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ مولانا نور عالم خلیل الامینی اڈیٹر الداعی دارالعلوم دیوبند رحمۃاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ "اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ پر اگر حکومت کا لبادہ نہ چڑھا ہوتا تو دنیا میں ان سے بڑا کوئی پیر بزرگ ولی شمار نہ کیا جاتا”۔
تحریر: محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
فون نمبر : 9933598528