دوسرا، تیسرا اور چوتھا نکاح!
مرد کا دوسرا، تیسرا نکاح کرنے کا جتنا سکون اور فائدہ عورت ذات کو ملتا ہے، اتنا مردوں کو نہیں۔ مثلا: عورتوں کو اپنی مرضی سے آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے، ماں باپ کے گھر جانے کےلیے وافر ٹائم مل جاتا ہے، اور یہ ٹینشن نہیں ہوتی کہ پیچھے شوہر کا کیا ہوگا؛ اس کو کھانا کون دےگا؟ کپڑے کون تیار کرےگا؟ مزید برآں مرد حرام رشتے قائم کرنے، حرام کاریوں میں پڑنے اور حرام جگہ پیسہ برباد کرنے سے بہت حد تک بچ جاتا ہے۔۔۔ عورتوں کے اللہ کی طرف سے بنائی ہوئی ساخت کے مطابق ماہانہ بھی اس کو آرام سے مل جاتا ہے، گھر کی کام والی بننے کی بجائے وہ گھر میں اور بھی بہت سے کاموں اور کورسسز کی طرف توجہ دینے کے قابل ہو جاتی ہے، لامحدود کام اور بچوں کو سنبھالنے کی وجہ سے آج کل کی عورتوں کی صحت کا حال ہوتا جا رہا ہے کہ۔۔۔ 35/سال میں ہی ختم ہوتی نظر آنے لگتی ہیں۔۔۔ کہ نا ظاہری حسن بچتا ہے اور نا باطنی؛ ان الجھن و پریشانی سے بھی چھٹکارا مل جاتا ہے۔ قبل از وقت موٹاپا اور دوسرے بہت سے امراض کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔ نماز اور دیگر عبادات تنہا ہونے کی شکل میں جو یکسوئی سے نہیں کر سکتی ہیں؛ وہ سب بھی آسانی سے ہونے لگتی ہیں۔
ایسے ہی اپنے اللہ کو راضی کرنے کےلیے وقت نہیں مل پاتا؛ کے جو عوارض و اسباب پیش پیش رہتے ہیں، ان سب کے پیچھے بس یہی سوچ کار فرما ہے کہ: ۔۔۔شوہر صرف میرا ہو کوئی ان کو یہ بتائے کہ: ۔۔۔شوہر آپ کا ہی ہوتا ہے۔
یہ انسیکورٹی جو آج ایک بیماری بن چکی ہے، یہی بس عورت کو چین نہیں لینے دیتی کہ: ۔۔۔شوہر میری مرضی کے مطابق چلے۔۔ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرے؛ وغیرہ؟؟؟ وغیرہ۔۔۔؟؟؟ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ: کیا آج کی عورت کے دل و دماغ میں گھومنے والے خیالات کا اللہ کو نہیں علم تھا، جب اللہ قرآن میں حکم دے رہا تھا، اور اللہ کے رسول اور صحابہ نے اور ان کے بعد آنے والوں نے؛ بلکہ ترکی، ایران، عرب و خلیجی ممالک، مصر و شام اور الجزار سب میں آج تک مرد ایک سے زیادہ نکاح کرنا عام ہے، یہ میں آج کے عرب ممالک کے حالات بتا رہا ہوں۔۔۔۔!!!
مگر غیر عرب ممالک کی عورت جو کہ یہود و ہنود کے پروپیگنڈا کا شکار ہے۔۔۔۔ وہ خود ہی عورت ذات کی دشمن بنی ہوئی ہے۔۔۔ نہ جانے کتنی بےچاری، کنواری لڑکیاں اور بیوہ، مطلقہ عورتیں گھروں میں بیٹھی بوڑھی اور عمر کی منزل کو پار کرتی جا رہی ہیں؛ لیکن اکثر عورتوں نے جو فتنہ پھیلایا ہوا ہے کہ عورت کو یہی غم بہت ہے کہ اس کا مرد کسی اور کاشریک کیوں ہو؟ یہی وجہ ہے کہ فی الوقت دنیا میں 60/فیصد عورتیں ہیں اور ان کے مقابلے 40/فیصد مرد ہیں، یعنی ہر گھر میں عورتوں کی تعداد کا فیصد مردوں سے زیادہ ہے۔ الغرض! اللہ کے نظام میں رکاوٹ ڈالنے سے معاشرہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہا ہے، پھر یہی عورت مرد کے حرام افیئرز کا بھی رونا روتی ہے۔ ایک سے زائد نکاح اللہ نے مرد کی جسمانی ضرورت کے لیے رکھے ہیں۔ خیرالقرون میں جب مرد حضرات غزوات و جہاد میں شہید ہو جاتے، تو اس وقت جو عورتیں بیوہ ہوتیں تو ان کی عدت مشکل ہی سے ان کے گھروں میں پوری ہونے کی نوبت آیا کرتی تھی اور اس اثناء میں ان کو دو یا تین جگہوں سے نکاح کی پیغام آ جاتے تھے؛ مگر آج کی عورت نے خود ہی ہر چیز کو مشکل کیا ہوا ہے!!!