خیالوں میں وہ آتےجارہےہیں
مسلسل آزماتے جا رہے ہیں
اکڑتے دند ناتے جا ر ہے ہیں
ہمیں شیخی دکھاتےجارہےہیں
انہیں جتنا مناتے جا رہے ہیں
وہ منہ اپنا پھلاتے جارہے ہیں
وہی سچ مچ بناتے جا رہےہیں
جو لو رب سےلگاتےجارہےہیں
سندہے یہ یقیناجھوٹے پن کی
قسم پیہم جوکھاتےجارہے ہیں
غم و آلام کےلمحات میں بھی
سدا ہم مسکراتے جا رہے ہیں
بڑی پہلی نظرہی جب سےان پر
مرےدل میں سماتےجا رہے ہیں
خداکومنہ دکھائیں گےوہ کیسے؟
جولوگوں کو ستاتے جا رہے ہیں
دبائے گی انہیں بھی قبر اک دن
جو حق ٫ ناحق دباتے جا رہےہیں
اسی کا نام تو ہے زندگانی
مسائل سر اٹھاتے جا رہے ہیں
معظم زندگی ہے چند روزہ
بہر صورت نبھاتے جا رہے ہیں
معظؔم ارزاں شاہی دوست پوری