نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI)کے قومی جنرل سکریٹری پی عبدالمجید فیضی نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں سوال اٹھایا ہے کہ مودی جی کے اچھے دن کیا امریکہ میں ہیں؟۔ کیونکہ مودی جی کے اچھے دن بڑی تعداد میں ہندوستانی شہریوں کو امریکہ کی طرف راغب کر رہا ہے۔ وزرات خارجہ کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ہندوستان سے امریکہ میں پناہ کے متلاشیوں کے اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں ہندوستانیوں کی جانب سے پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں تقریباً 855 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے لوگ یہاں رہنے سے نہیں بلکہ اسے چھوڑ کر کتنے خوش ہیں۔ کیا یہی حقیقی خوشی کا اشاریہ ہے!۔
وزیر خارجہ کا راجیہ سبھا میں رکن پارلیمنٹ کپل سبل کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتائے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 41,000 سے زیادہ ہندوستانیوں نے امریکہ میں پناہ کی درخواست دی ہے، دی ٹریبیون کی رپورٹ۔ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی رپورٹ ‘2023 ایسائلز اینول فلو رپورٹ’ کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 41,030 ہندوستانیوں نے پناہ کی درخواست دی تھی۔
جیسا کہ رپورٹ کیا گیا ہے، حکومت ہند کا ماننا ہے کہ ”پناہ کے متلاشی، غیر ملکی حکومت کے پاس پناہ کی درخواست دیتے ہوئے، ذاتی فائدے حاصل کرنے کے لیے ملک اور معاشرے کی تذلیل کرتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان، ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے، ہر ایک کو اپنی شکایات کے قانونی طور پر ازالے کے لیے راستے فراہم کرتا ہے۔
” حکومت ہند کو پناہ کے متلاشیوں پر ملک کی بدنامی کا الزام لگانے کے بجائے اس بات کا خود جائزہ لینا چاہئے کہ ان کا امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کی کیا وجہ ہے۔کیا سنگھ پریوار کی حکمرانی کے تحت ملک میں ان کی تذلیل ہی انہیں اپنی مادر وطن چھوڑنے پر اکساتی ہے؟، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک کی تذلیل نہیں کر رہے ہیں، بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے نفرت اور تشدد کی سماجی و سیاسی صورتحال پیدا کر دی ہے۔جہاں امن پسند لوگ جینے میں بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔
مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ غیر مطمئن لوگوں کے خلاف بدنامی کے الزامات لگائے جائیں بلکہ ایک پرامن ماحول کو یقینی بنایا جائے کہ جہاں لوگ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔