مداراس اسلامیہ، ملت اسلامیہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے، اس کی بقاء سے شعائر اسلام کی بقاء ہے، اور یہ بات صرف شنید پر منحصر نہیں ہے بلکہ دید و مشاہدہ ہے۔
پوری دنیا میں اس وقت اسلامیات سے قریب سب سے زیادہ اگر کہیں کے مسلمان ہیں تو وہ برصغیر کے ہی مسلمان ہیں، اور اس میں سب سے بڑا کردار مدارس اسلامیہ ودینیہ کاہے، خطہ ارضی کے جس علاقے میں ان مداراس اسلامیہ کا جال ہے خواص طور سے پچھلے چالیس پچاس سال سے اہل گجرات نے یورپ و افریقہ میں بھی مدارس کاجال بچھایا ہے جس کی وجہ سے اب وہاں کے مسلمان بھی اسلامیات کے پابند ہوتے جارہے ہیں۔
مدارس اسلامیہ میں باطنی اصلاح کے ساتھ ساتھ ظاہری حالت کی اصلاح پر بھی زور دی جاتی ہے اس وجہ سے ان کی شناخت دوسروں سے ممتاز ہوتی ہیں، مدارس اسلامیہ کے پروردہ جہاں بھی چلے جائیں اور وہ مدارس کی تربیت کے ساتھ ہو تو انہیں اپنے مسلمان ہونے کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں پڑتی ہے، بلکہ ان کی شکل و شباہت اپنے ہی تک نہیں بلکہ تمام ہی ادیان و ملل والے کے لئے تعارف ہوتا ہے کہ یہ مسلمان و مؤمن ہے۔
جب کہ مدارس اسلامیہ سے دور رہنے والوں میں 99/پرسینٹیز ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے مسلمان ہونے کے لئے تعارف کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ ان کی شکل و شباہت اس بات پر دال نہیں ہوتی ہے کہ وہ ایک کلمہ گو والوں میں سے ہیں، اس لئے بسا اوقات بعض سفر میں آپ کو ایسے رفیق ہوں گے جو آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں لیکن آپ کو احساس نہیں ہوگا کہ میراہم نشیں میرے بھائی ہیں، البتہ اگر وہ سلام کرلیں تو پھر حقیقت آشکارا ہوتی ہے۔
مدارس اسلامیہ کی تربیت سب پر عیاں ہے، اس اسلامی تربیت کی مدح سرا میں ہر ایک یکساں ہے، اس کی تربیت کی تعریف میں ہر زبان رطب اللسان ہے، مدارس کی تربیت بے مثال و بے مثل ہوتی ہے، مدارس اسلامیہ والوں کی یہ کہنا بجا اور درست ہے "ہمارا کام ہے انسان کوانساں بنادینا”۔
مدارس میں دوسری چیز ہے نظام تعلیم یہ بھی بہت حد تک درست ہے، کیونکہ اس نظام تعلیم سے ایک اہم چیز میں پختگی اور دنیا جہان کے سب سے قیمتی چیز کی اس سے حفاظت ہوتی ہے اور وہ ایمان ہے، اس نظام تعلیم کے پروردہ کو کوئی ایرا غیرا خرید نہیں سکتا ہے، کیونکہ یہ نظام تعلیم ایمان و ایقان کا محافظ ہے، اگر کہیں اس طرح کے کوئی واقعہ ہوجائے تو ہم اسے شاذ کہہ سکتے ہیں۔
البتہ اسی کے ساتھ موجودہ دور میں نظام تعلیم میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ زمانہ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہونا ہے جن میں سے چند چیزیں یہ ہیں۔
(1)سائنس کی ابتدائی معلومات اور اس کی شدبد، یہ اس وقت بہت ہی اہم اور ضروری ہے۔
(2)علم معاشیات سے واقفیت، کتاب البیوع (قدوری) سے تطابق، اور پھر جدید اسماء سے شناسائی۔
(3)ملکی وعالمی قوانین سے واقفیت اور پھر اسلامی قوانین سے تطابق، نیز انسانی تیار کردہ قوانین کی خامیاں اور ربانی قوانین کی تفوق۔
اگر ان چیزوں پر عمل ہونے لگے تو بیجا شکایت کرنے والوں کی زبان پر تالے اور چھالے پڑجائیں گے۔ ان شاء اللہ
تحریر: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی