اسلام میں دو اہم قربانیاں

اسلام میں دو اہم قربانیاں

قربانی وہ حقیقت ہے جس کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک طرف ہمارے جذبے میں بلندی اور ایمان میں پختگی پیدا ہوتی ہے وہیں دوسری جانب جب اپنے عشق وفا اور صبر و تحمل کو بے نقاب کرتی ہے تو ہمارا قلب آہ و بکا میں غرق ہوجاتا ہے حد تو یہ ہے کہ روتے روتے سسکیاں بندھ جاتی ہیں
یہ قربانی ہمیں دو مقام  پر لاکر قائم کر دیتی  ہے ایک تو میدان منی میں جب ایک باپ اپنے زندگی کے آخری حصے میں پائے ہوئے نورعین اور لخت جگر کے گردن پر چھری چلا دیتا ہے تو اس منظر کو ملاحظہ کرنے کے بعدتمام مومنین کے رگ و ریشے میں جذبہ ایمانی کی وہ لہر اٹھتی ہے کہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں ان کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں دوسرا جب میدان کربلا کے ان خاک و خون سے لت پت مناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں تب وہیں سے ہمارے قوم کے لوگوں میں جذبہ ایمانی موجیں مارتا ہے اور کہیں عبدالقیوم نامی مرد مجاہد اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور وہ گستاخ رسول کو کورٹ میں داخل ہوکر فیصل کے فیصلے کا انتظار نہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار کر اپنے آپ کو فنا فی سبیل اللہ کردیتا ہےاور کہیں ممتاز قادری جیسے ایک باوقار عالم دین گستاخِ رسول کی حمایت کرنے والے شخص کو جیل میں گھس کر جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں اتار دیتے ہیں اور ان کو جب حکومت پھانسی کی سزا سناتی ہے تو جذبہ ایمانی کا ایسا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ خود پھانسی کے پھندے کو چوم کر اپنے گلے میں ڈال کر کے  فی سبیل اللہ ابدی نیند  سو جاتے ہیں

ضرورت قربانی

 عقل و خِرد اور فکرو نظر کی انتہاء یہاں ہوتی ہے کہ ایک بزرگ باپ اپنے لخت جگر کے گردن پر چھری کیسے چلا سکتا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے تو نہایت غور و فکر کے بعد نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ حکم خدا پر عمل کرکے خدا کے حکم کا بندہ بننا تھا تاکہ قیامت تک مومنین میں جزبہ ایثاری باقی رہے اور کہیں کسی بھی اعتبار سے رب کے حکم کو بجا لانا ہو تو وہ اس حکم کو پس پشت نہ ڈالیں اس قربانی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام و ایمان کے جذبے کو برقرار رکھنا مقصود تھا 
پھر سوال اٹھتا ہے کہ یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ آنے والے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے جذبہ ایثاری کو باقی رکھنا تھا مگر میدان کربلا مین اس عظیم المرتبت شخص نے قربانی کیوں پیش کی جس کے نانا سیدالکونین ہوں جس کے والد داماد سید الکونین ہوں جن  کی ماں جنت کی  سردارہ ہون جن کے بھائی جنتی نوجوانوں کے سردار اور حد تو یہ کہ جو خود جنتی نوجوانوں کے سردار ہوں وہ اپنے کنبہ کے ساتھ میدانِ کربلا میں کیوں شہید ہوتے ہیں تو مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ جس اسلام میں ایثاری  کے جذبے کو باقی رکھنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو قربان کیا اسی اسلام کے جذبۂ ایثاری اور اس کی بقاء و تحفظ کے لیے میدان کربلا میں نواسہ رسول اپنے گھرانے کو قربان کردیا

محمد آصف نواز فیضی سنگرام پور
دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براوں شریف سدھارتھ نگر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے