قناعت پسندی اللہ کی خوشنودی

تحریر: سمیہ بنت عامر خان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ.سورۃ التوبہ (9:51) کہہ دو: ہمیں تو صرف وہی چیزیں پہنچیں گی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ رکھی ہیں۔ وہی ہمارا مددگار ہے، اور مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے.(سورۃ التوبہ (9:51))

قناعت کے معنی تھوڑی چیز پر خوش رہنا، جو مل جائے اس پر راضی رہنا۔ اس صفت سے متصف ہونے والا قانع کہلاتا ہے۔ ایسا شخص صابر، شاکر اور تھوڑے پر صبر و شکر کرنے والا اور ﷲ کی رضا میں راضی رہنے والا ہوتا ہے وہ فانی دنیا کی رنگینیوں میں نہیں پھنستا بلکہ آخرت کی کامیابی پر اس کی نظر ہوتی ہے۔ شکر اور قناعت کا بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ شکر یہ کہنے اور سننے میں نہایت ہی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے بہت وسیع ہے۔ہم پر ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہر چھوٹی بڑی نعمت پر شکر کرنا لازم و واجب ہے۔ شکر کی اصل یہ ہے کہ آدمی نعمت کا تصوّر اور اس کا اظہار کرے۔
قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (سورہ ابراھیم: ۷)
اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گااور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ۔‘‘
شکر انسان میں قناعت پیدا کرتا ہے اور قناعت ﷲ کی رضا میں راضی رہنا۔‌نعمت پر شکر کرنا، قناعت پسندی اور ﷲ پر بھروسہ و توکل ہی اسے دنیا و آخرت کی کامیابی دلا سکتی ہے۔ کیونکہ بندہ جب اللہ تَعَالٰی کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تَعَالٰی کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ قناعت اعتدال و میانہ روی اور کفایت شعاری اختیار کرنا، اسراف سے بچنا، قناعت ایمان کی سچائی کی علامت ہے، نفس کی راحت کی راہ ہے، قناعت لالچ و ہوس کی ضد ہے۔ قناعت کرنے والا یعنی قانع دنیا میں رہتے ہوۓ دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر خود کو تباہ و برباد نہیں کرتا، فضول خرچی اور اسراف سے اجتناب کرتا ہے حرام سے پرہیز کرتے ہوئے حلال طریقے سے دنیا کے کام انجام دیتا ہے۔ اور ہر حال میں اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں اور اپنے رب کو راضی کرنے میں لگا رہتا ہے کیونکہ اس کی نگاہ آخرت کی کامیابی پر رہتی ہے۔ غرض یہ کہ قناعت اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ہے، ﷲ کے نیک اور محبوب بندے ہی اس صفت سے متصف ہوتے ہیں اور ﷲ کی رضا پر راضی رہتے ہیں فانی دنیا کی رنگینیوں میں نہیں پھنستے بلکہ آخرت کی کامیابی پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ جیسے کہ حدیث میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ : "وہ کامیاب ہو گیا، جو اسلام لایا، اسے ضرورت کے مطابق روزی دی گئی اور ﷲ تعالیٰ نے اسے اپنی عطا پر قناعت کرنے کی توفیق بخشی۔” (صحیح مسلم 1055)
اس طرح شکر ادا کرنا اتنا خوبصورت عمل ہے کہ جنت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا چنانچہ جنتی جب جنت میں داخل ہوں گے تو اُن سب کی زبانوں پر شکر کے کلمات ہوں گے ، جیسا کہ سورۃ زُمَر میں فرمایا : ( وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ(۷۳) وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُۚ-فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ(۷۴)  اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے : تم پر سلام ہو ، تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ۔ اور وہ کہیں گے : سب خوبیاں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا اور ہمیں اِس زمین کا وارث کیا ، ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں گے تو کیا ہی اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کا۔ الزمر : 73 ، 74)
 جو شخص قناعت کی دولت سے مالا مال ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ضرورت کے مطابق خرچ کرے۔ اس صفت والا بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے سے کم تر کو دیکھے، ﷲ کے کسی نعمت کو کم و حقیر نہ جانے اور ہر نعمت پر ﷲ کا شکر ادا کرے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ : "اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم ﷲ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔” (سنن ابن ماجه : 4142)
اس کے علاوہ قناعت کی صفت سے متصف ہونے کے لئے صبر و اطمینان کرے، قناعت اطمینان کی جذباتی کیفیت ہے یعنی انسان اپنے نفس پر صبر کرے اور خواہشات کو کم کرے۔ ہمیں چاہئے کہ خوشی ملنے پر اپنے رب کریم کا شکر ادا کرے اور مصیبت میں صبر کرکے ثواب کماۓ، یہ مومن کی شان ہے۔‌ گویا ہمارے لیے دونوں صورتوں میں نفع کمانے کا موقع ہوتا ہے۔اس بات پر خوش گوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے رسولﷺ نے فرماتے ہیں کہ عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذٰلِكَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَاِنْ اَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ۔ مؤمن پر تعجب ہے کہ اس کا ہر معاملہ خیروالا ہے اور یہ بات سوائے مؤمن کے کسی کو حاصل نہیں، اگر مؤمن کو خوشی ملے توشکر کرتا ہے جو اس کے لئے خیر ہے اور اگر اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے،اس میں بھی مؤمن کے لئے خیر ہے۔
۔یادرکھیں ہر نفس کی خواہشات کا ایک نہ ایک دن اختتام ہے۔۔۔۔ یہ دنیا کی زندگی یہ خواہش، آرزوئیں، تمنائیں سب سامان فریب ہے جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا وہ خوش نصیب ہے اور جو ان‌ میں الجھ گیا، پھنس گیا وہ ناکام و نا مراد ہے۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۱۸۵)
ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔

اس کے علاوہ قناعت پسند لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے کہ اس سے انسان بھی قناعت کی دولت سے مالا مال ہوگا اور قناعت پسندی انسان کو متقی بناتی ہے۔ اے ﷲ ہمیں قناعت پسند اور شکر و صابر بنا اور ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والا بنائے۔
آمین یارب العالمین

One thought on “قناعت پسندی اللہ کی خوشنودی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے