سوچا تھا محبت میں کچھ آرام سا ہوگا
گر زخم ملے گا بھی تو گلفام سا ہوگا
تُو نے جو کہا میرے لیے عام نہیں ہے
پر تیرا کہا تیرے لیے عام سا ہوگا
اکثر یہ تصوّر بھی ستاتا ھیکہ وہ لب
خود جام ہی ہوگا یا فقط جام سا ہوگا
اک بار مری آنکھ سے آنکھیں تو ملاؤ
آنکھوں میں مری عشق کا پیغام سا ہوگا
آغاز میں جو شوق ہے فاروقؔ کے دل میں
تم شرط لگالو یہی انجام سا ہوگا
ریحان ارشد فاروقؔ اندرا نگر لکھنؤ