خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

تحریر: محمد دلشاد قاسمی

بہت دنوں سے تھے پس و پیش میں ہم

چپ ہی رہ جائیں ۔۔ کہ اظہارِ خیالات کریں

پھر یہ سوچا کہ پس و پیش کا اب وقت نہیں

ہم نشیں ، آ ذرا دل کھول کے کچھ بات کریں

ہندوستان کو 15 اگست 1947 کو آزادی ملی، جس کے بعد 26 جنوری 1950۔ آئین ساز اسمبلی نے تین سال کی عرق ریزی اور بحث و مباحثے کے بعد ملک میں آئین نافذ کیا ۔ جس میں لکھا گیا کہ ہندوستان میں بسنے والے ہر شہری کو یکساں حقوق ملیں گے ہر مذہب والے کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی ہر شہری کو آزادی رائے حاصل ہوگی اور ذات برادری کے نام پر کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا تبھی سے ہرسال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کی یادگار کے طور پر یہ دن منایا جاتا ہے ۔
اور اسی دن 1950ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے 1935ء گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کو منسوخ کر کے بھارت نے اپنا آئین نافذ کیا۔اور ہندوستان جمہوری ملک میں بدلا ۔
یہ لکھا جانے والا دنیا کا سب سے طویل ترین آئین ہے۔ اسی آئین کی بدولت بھارت کو دنیا کی ایک مستحکم اور مضبوط جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے۔
جمہوریت کو اگر ہم دو لفظوں میں سمجھنا چاہیں تو یو سمجھ سکتے ہیں کہ تم میری مخالفت کرتے ہو مجھے برا لگتا ہے لیکن تمھیں میری مخالفت کرنے کا حق حاصل رہے اس کے لیے میں ساری عمر لڑتا رہوں گا یہ ہندوستان کی جمہوریت ہے ۔
لیکن آج ہندوستان کی جمہوریت کو ختم کیا جا رہا ہے ذات پات کی سیاست کی جا رہی ہے اور جمہوری ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنے کی سازش اور کوشش کی جا رہی ہے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ہم صرف روایتی خوشی منانے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ہندوستان کے ایک ایک شہری کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ یہ جمہوری ملک ہے یہاں ہر شخص کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم ہوں گے کسان مزدور اور ہنرمند سب خوش حال ہونگے یہاں ہر مذہب کا احترام کیا جائے گا ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے پیغامات کی اشاعت کا حق دیا جائے گا چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم سکھ ہو یا عیسائی ہر کوئی شہری ہونے کے ناطے بھائی بھائی ہے 26 جنوری کا دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور آپس کے اختلاف و انتشار کو ختم کریں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کرکے ان کے جیسا بننے کی کوشش کریں ملک کے دانشور طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاؤں شہر کے اسکول کالج اور یونیورسٹیوں میں پروگرام منعقد کرے اور عوام کو بتائے کہ جمہوریت کیا ہے؟ ہندوستان کا آئین ہمیں کیا حقوق دیتا ہے؟ پھر اس کے بعد ہر شہری کی ذمہ داری ہےکہ خود جمہوریت سے آشنا ہوں اور لوگوں کو جمہوریت کے بارے میں بتائیں اور جمہوریت کے تئیں عوام کو بیدار کرے۔

میں چاہتا ہوں نظام کہن بدل ڈالو

مگر یہ بات فقط میرے بس کی بات نہیں

اٹھو اٹھو میری دنیا کے عام انسانوں

یہ کام سب کا ہے دو چار دس کی بات نہیں

آج 26 جنوری کے دن میں تمام ہم وطنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ بلا تفریق مذہب و ملت آپس میں مل جل کر جشن یوم جمہوریہ منایا جائے اور آپسی بھائی چارے کی مثال قائم کرے اور جمہوریت سے کھلواڑ کرنے والے کو ایک سبق دیں ۔
روح باقی ہے جان باقی ہے
سر پہ ایک صاحبان باقی ہے
ملک کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا یارو
جب تک سمدھان باقی ہے۔

یوم جمہوریہ؛ جو کہ امسال 2022 میں) بدھ کے روز ہے، ملک بھر میں اس کی تیاریاں نہایت اہتمام سے کی جا رہی ہیں، ایسے موقعوں پر عوام میں بھی خاصا جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہماری طبیعت ہے کہ اس وقت بھی غم گین ہے اور ہمارے قلب و جگر پر ایک افسردگی چھائی ہوئی ہے، ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ اس موقع پر جمہوری قانون کے نفاذ کی خوشیاں منائیں یا پھر اس قانون کی ہمارے ملک میں جو دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اس پر ماتم کریں! آج ملک ہندوستان میں ہر شہری کو برابر سمجھا جاتا ہے؟ شہری کے حقوق دیے جاتے ہیں؟ آج ملک میں مسلمان اقلیت کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟ آج ان کو ہر طرح سے ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہےکبھی گائے کے نام پر تو کبھی لو جہاد کے نام پر کبھی کسی اور مسائل پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی جارہی ہے مسلمانوں کی مسجدوں کو مسمار کیا جا رہا ہے ان کے نماز پڑھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے کیا یہی جمہوریت ہے؟ آئین کی اہمیت سے انکار نہیں، وہ تو تمام ملکی قانون کا منبع ہے، ہمارے کرب کی وجہ تو یہ ہے کہ جس آئین کی رو سے مذہب و ملت، ذات پات، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق کیے بغیر ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کیے جاتے ہیں، آج اسی آئین کی پرواہ کیوں نہیں کی جاتی ؟ کیوں ہم اس آئین کے یومِ نفاذ کی رسمی سی خوشیاں منانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن ہر دم اس آئین کی اہانت یا استہزا اور تمسخر بنائے جانے کو روکنے کی فکر نہیں کرتے؟ یومِ جمہوریہ منانے والے اس جانب کوئی پیس رفت کیوں نہیں کرتے کہ یہ آئین اصحابِ اقتدار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہے؟ اس ملک میں کسی ایک تہذیب کا بڑھاوا دینا یا کسی ایک مذہب کو سب پر مسلط کرنا دستور کے خلاف ہے۔ ماضی میں اگر ہم نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی تو اس کی بنیاد یہی ہے کہ آپ نے مذہب کے نام پر اس قانون میں امتیاز برتا ہے۔ ہمارے ملک کا دستور یہ کہتا ہے کسی بھی مذہب والے کیساتھ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا، اگر کوئی بھید بھاؤ کیا جائے گا تو یہ اس ملک کی اصل روح کے خلاف ہے، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہے اس ملک کے دستور کے خلاف ہے۔ہمارے دستور کی تمہید میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں ہمارے دستور کی بنیاد آزادی، مساوات اور ہمدری ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ 74 سال گزر جانے کے بعد ہم حسرت سے یوم جمہوریہ کے اس پر مسرت موقع پر یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو قتل کیا جارہا ہے۔ جب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت داغدار کیا جارہا ہے اور اس گھناؤنی سازش میں سرکاری مشینری اور بیشتر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہے تو مسلم لیڈر اور تنظیمیں اس سازش کو اعلانیہ فاش کرنے اور اس سے لڑنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں ؟ اگر ہم ملکی سطح پر ہے اس صریح ظلم و ناانصافی کے خلاف مسلمانوں کی کوششوں کا جائزہ لیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہیں مسلمانوں کی اس صورتحال کا اندازہ تو ضرور ہے مگر اس کے خلاف لڑنے کی جو متحدہ کوشش ہونی چاہیے افسوس وہ اب تک عنقا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان بے خوف ہوکر اور مصلحت کے پردے سے اوپر اٹھ کر ان مظالم کے خلاف کھڑے ہوتے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان طے کر لیں کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے مسلمان جب تک اس ظلم کے خلاف سیاسی محاذ نہیں کھولیں گے جب تک حکومت کو للکار کر یہ نہیں کہیں گے کہ ہم ڈرتے نہیں اگر یہاں کی جمہوریت پر کوئی آنچ آئے گی یا کانسٹیٹیوشن سے کھلواڑ کیا جائے گا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک مسلمان یہ نہیں کریں گے اس وقت تک ان کے ساتھ ایسا ہی ظلم ہوتا رہے گا ۔

آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر

دیکھے تھے ہم نے جو وہ حسیں خواب کیا ہوئے

دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

خوشحالئ عوام کے اسباب کیا ہوئے

جمہوریت نواز بشر دوست امن خواہ

خود کو جو خود دیے تھے وہ القاب کیا ہوئے

ہر کوچہ شعلہ زار ہے ہر شہر قتل گاہ

یکجہتئ حیات کے آداب کیا ہوئے

مجرم ہوں میں اگر تو گنہ گار تم بھی ہو

اے رہبران قوم خطا کار تم بھی ہو

جمہوریت کے چار ستون ہیں عدلیہ ، مقننہ ، پارلیمنٹ ، اور میڈیا۔
اگر میں عدلیہ کی بات کروں تو آپ یہ دیکھیں کہ کتنے فیصلے ایسے ہیں جو انصاف کی بنیاد پر کیے جارہے ہیں اور کتنے فیصلے ایسے ہیں جن کی وجہ سے معصوم اور بے قصور نوجوانوں کو جیل کے اندر دھکیلا جارہا ہے کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو انصاف مل رہا ہے اور کتنے لوگ ایسے ہیں جو انصاف کے لیے کورٹ کے باہر دھکے کھا رہے ہیں۔
اگر میں پارلیمنٹ کی بات کروں تو آپ یہ دیکھیں کہ کتنے ایم این اے اور ایم پی ایز ایسے ہیں جو منصف ہیں ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو ظالم اور کرپٹ ہیں۔

تیسرے پر اگر میں بات کروں مقننہ کی تو آپ یہ دیکھیں کہ کتنے قانون ایسے ہیں جو عوام کے مفاد کے لیے بنائے جارہے ہیں اور کتنے قانون ایسے ہیں جو عوام کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائے جارہے ہیں۔

جمہوریت کا چوتھا اور اہم ستون میڈیا ہے اور میڈیا پر پابندی گویا پورے دیش کی آواز پر پابندی ہوگی لیکن اس وقت کیا کیا جائے کہ جب میڈیا کی یہی آزادی لوگوں میں نفرت پھیلانے کا باعث ہو میڈیا کی یہی آزادی بے قصور اور معصوم لوگوں کو مجرم بنا دینے کا باعث ہوں اور آپس میں انارکی اور افراتفری پھیلانے کا باعث ہو تو اس وقت کیا کیا جائے ؟ میڈیا کا کام عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانا ہے نہ کہ عوام میں نفرت پھیلانا حقیقت میں میڈیا کو جن مدو پر بات کرنی چاہیے میڈیا کبھی ان مدو پر آواز نہیں اٹھاتی ملک کی اکانومی کا مسئلہ ہے ، بے روزگاری کا مسئلہ ہے غربت کا مسئلہ ہے تعلیم کا مسئلہ ہے جن پر آواز اٹھائی جانی چاہیے لیکن میڈیا کبھی ان پر بات نہیں کرتی ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کا کام اس وقت صرف ہندو مسلم منافرت پھیلانا اور لوگوں کو آپس میں لڑوانا ہی اس کا کام رہ گیا ہے میڈیا مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے بلکہ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ میڈیا کا کام صرف حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور عوام کی توجہ اصل موضوعات سے ہٹا کر اسے غیر ضروری ایشوز میں الجھائے رکھنا ہے جس طریقے سے میڈیا عوام میں نفرت پھیلانے کا اور ہندو مسلم ماحول بنانے کا کام کر رہی ہے تو میں اس کی پرزور مخالفت کرتا ہوں اور مذمت کرتا ہوں اور ہندوستان کے تمام شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میڈیا کی باتوں میں نہ آئے اور اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھیں اور حقیقت کا جائزہ لیں ۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کی ذہنی نشوونما کو نظر انداز کر دیا اور ان کو اپنے طور پر سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم نہ کیا تو ہم سنگین جرم کے مرتکب ہوں گے اور ہماری آنے والی نسلیں افکار کی تازگی سے محروم ہو نگی اور انہیں اپنی محرومی کا سبب بھی معلوم نہ ہوگا دستور تو اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ حکمرانوں کے اختیارات کو محدود رکھا جاسکے لیکن اب اس چیز کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ ایسا دستور بنایا جائے جس میں ذہنی غلامی کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہو کیونکہ ذہنوں کو غلام بنانا جسموں کو غلام بنانے سے بدتر فعل ہے ۔

کچھ فرقہ پرست طاقتوں نے ہمارے ہندوستان کو ایک ایسے دورہ پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ اگر اس کو صحیح رخ نہیں دیا گیا تو زیادہ تر امکان ہے اس بات کا کہ ہمارا دیش فرقہ وارانہ راستے کی طرف چلا جائے گا اور وہ دیش جس کو ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانی اور جدوجہد کے ساتھ انگریزوں سے آزاد کرایا تھا ان کی ساری کوششیں قربانیاں اور جدوجہد رائیگاں ہو جائیں گی اس لیے میں ہندوستان کے تمام شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سوچیں اور سمجھیں کہ کہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور سے کچھ ایسے اقدام تو نہیں کر رہے ہیں جس سے ہمارے دیش کو خطرہ ہے ۔

آخر میں یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے میں اس وقت بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وطنِ عزیز ہندوستان، جسے لوگ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانتے ہیں اس میں جو مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی ہے، ہمیں اس میں حقیقی جمہوریت کو قائم و مستحکم کرنے کی فکر و سعی کرنی چاہیے، جب تک ایسا نہیں ہو جاتا ان چند رسمی تقریبات کا منعقد کر لینا کچھ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا!

اٹھو ہند کے باغبانو اٹھو

اٹھو انقلابی جوانو اٹھو

اٹھو برق کی طرح ہنستے ہوئے

کڑکتے گرجتے برستے ہوئے

غلامی کی زنجیر کو توڑ دو

زمانے کی رفتار کو موڑ دو

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے