ازقلم: نیاز جیراجپوری علیگ
ہے میری ہر خوشی ، ہر غم تمہاری ہی عنایت سے
لبِ خنداں و چشمِ نَم تمہاری ہی عنایت سے
خوشی کے مُسکراتے رنگوں کی آغوش میں سوئے
مِرے یہ روز و شب برہم تمہاری ہی عنایت سے
مُرادوں کی یہ ساعت اور محرومی کے یہ منظر
کہیں زیادہ کہیں کم کم تمہاری ہی عنایت سے
رگوں میں دَوڑتے خُوں سے یہ احساسِ دِلِ زِندہ
مِری سانسوں کی یہ سَرگم تمہاری ہی عنایت سے
یہ سنّاٹے جو میری رُوح کی خاموش وُسعت میں
سُنائی دیتے ہیں ہر دَم تمہاری ہی عنایت سے
شبِ مایوسی سے جنگ آزما اُمّید کی صُبحیں
کِیا کرتی ہیں تازہ دَم تمہاری ہی عنایت سے
مِری ہر سوچ ہے مرکُوز تیرے ہی فسانے پر
تصوُّر کے یہ پیچ و خَم تمہاری ہی عنایت سے
ہَوائے قُرب کے جھونکے صدائے وصل کی خُوشبو
جُدائی کے سبھی موسم تمہاری ہی عنایت سے
لکیریں دُھوپ چھاؤں کی یہ تا حدِّ نظر پَھیلی
کہیں روشن کہیں مُبہم تمہاری ہی عنایت سے
بہت نازُک تصوُّ سے بھی نازُک سانس کے ڈورے
خیالِ زیستِ مُستحکم تمہاری ہی عنایت سے
سنبھلنے اور گِرنے کا ازَل سے سِلسِلہ جاری
بڑھے جاتے ہیں پِھر بھی ہم تمہاری عنایت سے
سُلگتے ریگزاروں پر جُھلستے کوہساروں پر
برستے بِھیگتے موسم تمہاری ہی عنایت سے
اُداسی اور تنہائی کے اِس تپتے بیاباں میں
یہ گُلہائے صدائے نَم تمہاری ہی عنائے سے
بَہارِ حُسن کے ہونٹوں سے قِصّے ہِجر کے سُننا
سِیہ پُھولوں کے موسم تمہاری ہی عنایت سے
فصیلِ جِسم و جاں پر دستِ تاریکی میں لہراتے
اُجالوں کے حسیں پَرچم تمہاری ہی عنایت سے
کہیں پر جاں بلب ہریالی لُو کے تُند جھونکوں سے
کہیں برسات کی چَھم چَھم تمہاری ہی عنایت سے
مسلسل گردِشِ حالات سے دو چار رہ کر بھی
سلامت ہی رہے دَم خَم تمہاری ہی عنایت سے
کہیں پر گِریۂ شیشہ ، کہیں پر عکسِ چشمِ نَم
یہ تقسیماتِ جامِ جَم تمہاری ہی عنایت سے
کبھی تو درد کی شِدّت سے رِستی رہتی ہیں آنکھیں
کبھی ہے زخموں پہ مرہم تمہاری ہی عنایت سے
ہمارے ذہن سے بہتے ہُوئے تخلیق کے چشمے
یہ غور و فِکر کا سنگم تمہاری ہی عنایت سے
نیازؔ اُڑ اُڑ کے خُوشبوئے تخیُّل کہتی پِھرتی ہے
صریرِ ضامہ ہے پَیہم تمہاری ہی عنایت سے