حج کا منظر

ازقلم: مستفیض الرحمن قاسمی چمپارنی

خدا کی ضیافت کا موسم آگیا ہے اس برس جنہیں ضیوف الرحمن م بننا مقدر ہوا ہے وہ پاک شہر مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں ہے ہر روز اطراف عالم سے قافلے جوق در جوق پہنچ رہے ہیں ہر رنگ ہر نسل ہر ملک ہر خطہ اور سارے برے اعظموں سے مرد و زن بچے بوڑھے ہر عمر کے مومنین و مومنات رب کے دربار میں اپنی حاضری دے رہے ہیں سب سے پہلے دعا یہ ہے کہ اللہ ان کے حج کو قبول کریں۔

حجاج کرام کا قافلہ جب مکہ مکرمہ کی سرزمین پر پہنچتا ہے اور پھر برسہا برس سے خانہ کعبہ کی زیارت کو ترستی آنکھیں بیت اللہ کو دیکھتی ہیں تو آنسوؤں کی لڑی موتیوں کی جھڑی بن کر نگینہ کی شکل میں رواں دواں ہو جاتی ہیں۔(اللہ تعالی ہم سب کو یہ موقع عنایت کرے)۔
پھر خانہ خدا کا طواف قدوم اور منی میں یوم الترویہ گذار کر عرفات میں ایک دن کا وقوف اس کے بعد سعی بین الصفا و المروہ پھر قربانی اور اس کے بعد حلق/قصر پھر رمی جمار اب پھر طواف اضافہ پھر منی میں ایام تشرق کا گذران اور خانہ کعبہ آکر طواف وداع ہر جگہ خدا کی قدرت کا کرشمہ نظر آتا ہے۔
اب جب حج ہو چکا تو اب محبوب دو عالم سرور کونین چیدہ اور چنندہ پیغمبر خدا کا حبیب جس کے لئے رب نے یہ دنیا سجائی عالم اسلام کا ہر ہر شخص جن کے نام پر قربان ہونے کو ہر وقت تیار ماں باپ سے بڑھ کر مومنین کے نزدیک جن کا مقام ان سے ملاقات کے لئے سب سے پیارا شہر سب سے نیارا شہر شہر مدینہ کی جانب ضیوف الرحمن رواں دواں ہیں وہ اپنے دلوں میں حبیب ﷺ سے ملنے ان پر سلام پڑھنے ان سے اپنی کمی کوتاہی پر معذرت خواہی کرنے کے انتہائی بے لوث نیک محبت کے ساتھ ساتھ ذرا سہمے ہوئے بھی ہیں کہ کہیں دربار نبی میں کوئی لغزش نہ ہو جائے بھول کر کہیں آوازیں بلند نہ ہو جائے از راہ خطا کوئی ایسا عمل نہ ہو جائے کہ زندگی بھر کا سارا عمل کہیں رائیگاں چلا جائے ۔
اب جب نبی ﷺ کی مبارک مسجد میں پہنچے ہیں تو بس یہاں بھی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی چشمہ پھوٹ گیا ہے منظر اور سیناریو بھی انتہائی جذباتی ہے دل چاہتا ہے یہیں رہ جاؤں کیونکہ روضہ اقدس کی جالی , ریاض الجنت مسجد نبوی صحابہ کرام کی یادیں جنت البقیع یہ ساری چیزیں کوئی مومن نہیں چاہتا کہ وہ چھوڑ کر چلا جائے لیکن بس مجبوریاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے واپس آنا پڑتا ہے اور پھر یہ کہ تمام مسلمانوں کا وہیں جاکر بس جانا ممکن بھی نہیں ہے اور یہ شریعت کے مزاج کے خلاف بھی ہے۔
خیر مہمانان خدا! آپ سے یہی التجا ہے کہ راقم کا سلام بھی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دیجئے گا اور رب العزت سے التجا ہے کہ اے رب! بس اتنی میزبانی فرما کہ تمام حجاج کرام کے حج کو شرفِ قبولیت سے نواز دے اور مجھے اور تمام مسلمانوں کو بھی اپنا مہمان بنا۔