مسجد کا تصور عہد نبوی میں

تحریر: نقی احمد ندوی

اسلام میں مسجد کا تصور وہ نہیں ہے جسکا مشاہدہ ہم لوگ آج اپنے دور میں کررہے ہیں۔ اسلام میں مسجد کا تصوریہ ہے کہ اس کے اطراف کا پورا معاشرہ اس کے ارد گرد گھومے۔ اسلام میں مسجد  اپنے سماج میں ایک ایسے دھڑکتے ہوئے دل کی حیثیت رکھتیہے جو اگر حرکت کرنا بند کردے تو پورا جسم بے جان ہوجائے اور اگر اس کے اندر حرکت اور زندگی اور تازگی ہو تو پورا معاشرہ زندہ اور پاورفل بن جائے۔
 آنحضورﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلا جو کام کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، شہر کے قلب میں دو یتیم بچوں کی زمین خریدی اور 622ء میں اسپر مسجد کی تعمیر شروع کی، کھجور کے جھاڑ اور مٹی پتھر سے بنی یہ مسجد محض آج کے زمانہ کے طرح ایک عمارت نہیں تھی جو پنچ وقتہ نماز کے لئے کھولی جاتی ہو اور پھر اس پر تالا لگا دیا جاتا ہو بلکہ مدینہ کا پورا معاشرہ اس کے ارد گرد گھوما کرتا تھا۔
 انحضور ﷺ کے دور میں مسجد نبوی میں جو امور انجام پاتے تھے اس پر ایک نظر ڈالیں۔
۱۔ عبادت وریاضت: مسجد نبوی میں آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہیم عبادت وریاضت کیا کرتے تھے۔
۲۔ تعلیم: مسجد کے اندر جہاں ایک طرف تعلیمی حلقے منعقد ہوتے تھے، وہیں دور جدید کا پہلا اسکول اور مدرسہ (صفہ) بھی آنحضورﷺ نے کھول کر ایجوکیشن کی نئی راہیں کھولیں اور ایک ہاسٹل بھی بنادیا اور وہ بھی مفت طعام وقیام جس کی ذمہ داری محلہ والوں پررکھی۔ تعلیم وتدریس کا یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں مسجد نبوی میں موجود ہے۔
۳۔ مجلس شوری: آپ ﷺ صحابہ کرام سے جنگ اور مخلتف امور پر یہاں مشورے بھی کیا کرتے تھے،غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے علاوہ دیگر جنگوں میں یہاں مشاورتی میٹنگیں منعقد ہوئیں اور یہ سلسلہ آپ کے بعد بھی جاری رہا۔
۴۔ دار القضاء: مسجد نبوی عدالت کا بھی کام کیا کرتی تھی، آپﷺ کے سامنے جب کوئی نزاعی مسئلہ آجاتا تو مسجد نبوی میں اسکو حل کیا کرتے تھے۔
۵۔ مسافر خانہ: مسجد نبوی نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لئے مسافر خانہ کا کام کیا کرتا تھا، بلکہ غیرمسلموں کے بھی قیام وطعام کا انتظام مسجد نبوی میں ہوا کرتا تھا، نجران کے نصاری کے علاوہ بہت سے مشرکین کے وفود کو بھی مسجد میں ٹھہرایا اور اسلام کو سمجھنے کا انہیں موقع دیا جس کی وجہ سے بہت سے غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔
۶۔ دار المال: مسجد نبوی کی حیثیت ایک دار المال کی بھی تھی، چنانچہ مدینہ کی ریاست میں جو بھی مال آتا تھا وہ مسجد نبوی ہی میں رکھا جاتا تھا اور وہیں سے تقسیم ہوتا تھا۔
۷۔ فوجی ٹریننگ سنٹر: مسجد نبوی میں فوجی ٹریننگ بھی ہوا کرتی تھی، چنانچہ جب حبشہ کے بعض افراد نے مسجد نبوی کے اندر نیزہ بازی کی تو آپ نے منع نہیں فرمایا، اسی طرح صحابہ کرام مسجد کے اندر اسلحے وغیرہ بھی مرمت اور تیار کیا کرتے تھے۔
۸۔ کلینک: غزوہ خندق میں زخمیوں کے علاج کے لئے مسجد نبوی نے ایک ایمرجنسی کلینک بھی قائم کی گئی تھی اورحضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے ایک خیمہ لگایا گیا تھا جہاں ان کا علاج چلتا رہا۔  

۹۔ جیل: مسجد نبوی کو جیل کے طور پر بھی آپﷺ نے استعمال کیا، چنانچہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جو بعد میں اسلام لے آئے تھے۔
۰۱۔ ذرائع ابلاغ: اس دور میں عرب میں سب سے بڑا ذرائع ابلاغ شاعری ہوا کرتی تھی، آپ ﷺ نے اس کا بھی استعمال کیا۔ چنانچہ شعراء مسجد نبوی کے اندر اسلام کے عظمت میں اشعارپڑھا کرتے تھے اور اس طرح مسجدنبوی میں شعر وشاعری کی محفلیں بھیمنعقد ہوا کرتی تھیں۔
مزید وضاحتکے لئے بخاری، ترمذی اور دیگر کتب صحاح کا مراجعہ کیا جاکسکتا ہے، جہاں آپ کومسجد نبوی کے مختلف استعمال پر پوری تفصیلات مل جائیں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضور ﷺ نے اپنے معاشرہ کے اندر سماجی، معاشی، سیاسی، جنگی، عدالتی،رفاہی اور تعلیمی انقلاب پیدا کرنے کے لئے مسجد نبوی کا استعمال کیا تو پھر کیوں نہیں ہم آپ ﷺ کی طرح اپنی مسجدوں کا استعمال کرکے اپنے سماج میں ایک مثبت اور مفید تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں؟