غزل: ہماری آنکھ میں کس نے تھکن اتاری ہے

نزول لفظوں کا اک ضابطے سے جاری ہے
اسی لیے تو زمانے پہ خوف طاری ہے

ہمارے خواب رفاقت کا بوجھ ڈھوتے ہیں
ہماری آنکھ میں کس نے تھکن اتاری ہے

سفر میں بھاگتے پیڑوں سے ہمکلام ہوں میں
سفر نہیں ہے یہی تو شجر شماری ہے

زمین کتنے حوالوں سے معتبر ٹھہری
فلک کی آنکھ میں صدیوں سے سوگواری ہے

سڑک کا بخت درختوں کے ساتھ ہوتا ہے
مگر زمانے کے ہاتھوں میں ایک آری ہے

ہمارے سجدے ٹکے ہیں کسی کے چندے پر
یہ دین داری حقیقت میں دنیا داری ہے

منافقین کو مصرع مرا سنا دینا
شمار ہونا حقیقت میں بے شماری ہے

خراب ہوتے لطیفوں پہ رونا آتا ہے
عجیب کرب میں اس عہد کا مداری ہے

فلک کا بوجھ اٹھانے میں کچھ نہیں مہوش
ہمارے پاؤں کی خاطر زمین بھاری ہے

ازقلم: مہوش احسن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے