لاک ڈاؤن کے منفی اثرات اور حکومت ہند کی بے توجہی

تحریر: محمد اسلام فیضی
سرکاریں عام آدمی سے بلکل علٰحیده ہو گئی ہیں اس لئے نہ انھیں عوام کی  فکر ہے اورنہ ہی انکی پریشانیوں کا احساس ہے۔دہاڑی مزدور ہر جگہ  پریشان ہیں ،انکی تعداد لاکھوں میں ہے جو بڑے بڑےشہروں میں پھنسے  ہوئے ہیں۔اکیلے دلّی میں کئی لاکھ لوگ سرکاری رین بسیروں میں ،چھوٹے  چھوٹے کمروں میں ،سڑکوں پر،فٹ پاتھ پر پھنسے ہوئے ہیں۔یہ رکشہ والے  ،چھوٹے چھوٹے کام گارمزدور جو دلّی میں اور دوسرے بڑے شہروں میں  پھنسے ہوئے ہیں انکی صرف ایک خواہش ہے کہ انھیں انکے گھر ،انکے  گاؤں بھیج دیا جائے ۔ 
نتیش کمار جیسے سیاسی اور سماجی رہنماء جب یہ بولتے ہیں کہ مزدوروں  کے بہار میں آنے سے بہار میں بیماری بڑھ جائگی تب احساس ہوتا ہے کہ  سرکاروں کو انکی کتنی فکر ہے۔مرکزی حکومت سے گزارش ہے انکی اور  
انسانیت سے دیکھے۔سرکار انکے کھانے کا انتظام کر بھی دے ،اور کافی حد  تک کر بھی رہی ہے تب بھی انکے دوسرے خرچ بھی ہیں،جنکا انتظام ہی  کوئ سرکار نہیں کر سکتی۔ انکے سڑکوں پر ہونے سے انکے لئے بھیصاف صفائ کا مسئلہ ہے اور ہماے لئے بھی ،قانونی انتظام بھی بگڑ سکتی ہے۔ انکے لئے حکومت کو چاہئے کہ سرکاری ٹرینں چلوائے اور انھیں انکے  گھروں میں یا سرکاری پرائمری اسکولوں میں کوارنٹین رکھیں لیکن انھیں  انکے گھر بھیج دیں ورنہ آپ کتنے بھی مہینے لاک ڈاؤن کر لیں وه کامیاب  نہیں ہوگا۔ 
 گھنٹے کا وقت دے کرکیا تھا 4آپ نے پہلا لاک ڈاؤن بغیر کسی تیاری کے  اور اب بڑھایا بھی تو تب بھی عوام کی پریشانیوں سے منھ پھیر رہے  ہیں۔پہلے جیسی صورت حال جو سورت (گجرات) اور دلّی میں ہوا وہی حال  اب ممبئی میں ہو گیا اور ایسے ہی رہا تو کل کو کہیں اور بھی ہو سکتا ہے۔  
وزیر اعظم کے خطاب کے بعد آپ ممبئی میں لوگوں کے ہجوم کا اندازه  سوشل میڈیا ،یا میڈیا میں تصویروں کے ذریعہ لگا سکتے ہیں۔ وه لوگ اپنے  گھر لوٹنے کی مانگ کو لیکر جمع ہوئے ہیں۔ 
4کیا اپنے گھر واپس جانے کی مانگ کرنا جرم ہے؟ دنیا کے کس ملک نے  گھنٹے کا وقت دے کر لاک ڈاؤن کیا ہے؟لاک ڈاؤن تو نہ ہو سکا مزاق ہو  گیا۔مرکزی حکومت اگرمدھیہ پردیش کی سرکار گرانے میں مصروف تھی تو  معصوم عوام کی اس میں کیا غلطی؟حکومت اپنی غلطی مزدوروں پر تھوپ  رہی ہے ۔حکومت انسانیت کا ثبوت دے اور انھیں انکے گھر پہچانے میں مدد  کرے۔ 
ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانی میڈیا بھی اس مہماری میں ایک  انچ بھی پیچھے نہیں ہے وه اس پر فتن حالات کو بھی مذہبی اور سیاسی  رنگ دینے پر تلی ہوئ ہے۔پہلے لاک ڈاؤن پر سورت (گجرات )کے ہجوم پر  
کوئ مباحثہ نہیں کیا اور جب دلؑی اور ممبئ کی بات سامنے آئ تو فوراً  مباحثہ شروع۔پتہ ہے کیوں ؟ کیونکہ دلؑی اور ممبئ میں مرکزی حکومت  -5مخالف میں ہے ۔باقی آپ سب سمجھدار ہیں۔ یہ بھی سوچئے اگر اس میں  
 لوگ کورونا پوزیڑو ہوئے تو اسکے کتنے بھیانک انجام آ سکتے ہیں۔ 10 میڈیا کی اگر کرونولوجی سمجھی جائے تو سورت(گجرات) کے لئے مزدور  قصوروار ہیں ،آنند وہار کے لئے کیجروال قصوروار ہیں ،باندرا کے لئےٹھاکرے قصوروار ہیں اور پھر اگر کوئ کمی ره جائے تو اس کے لئے  جماعتی تو ہیں ہی۔ 
آج نہیں تو کل آپ کو انھیں انکے گھر بھیجنا پڑیگا ہی ،تو آج بھیج دیجئے  جس سے قانونی نظام تو بنی رہے۔ 
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ کوئ بھی نیوز چینل یہ نہیں بتا رہا ہے کہ یہ  لوگ ریلوے اسٹیشن پر کیا کر رہے تھے۔زیاده تر لوگوں کے ریلوے ٹکٹ  بک تھے جنھیں لاک ڈاؤن بڑھنے کے بعد ریلوے نے خارج کر دیا۔ریلوے   اپریل کو اے ،بی ،پی مراٹھی نے یہ خبر 13نے ٹکٹ کیوں بک کئے تھے؟   اپریل (لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد)مہاراشٹر سے 14چھا پی تھی کی  جنسادھارن اسپیشل ٹرین چلوانے کا فیصلہ لیا ہے ۔مزدوروں کو جمع ہونے  میں کوئ سازش تھی یا لا پرواہی ؟کیا اسکا بھی پہچان کیا جائگا ؟کیا سرکار  کا آپس میں بلکل تال میل نہیں ہے؟ریلوے نے ٹکٹ بک کر کے افرا تفری  پھیلائ ہے۔وزیر اعظم کو پیوش گویل سے جواب طلب کرنا چاہئے ،کہیں  ریلوے منسٹر صاحب بڑا خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔اور جو بھی سیاسی یا  سماجی رہنماء یہ ٹوئٹ کرتے ہیں یا سوشل میڈیا پر اپنی عقلمندی دکھاتے  ہیں کی یہ لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں سڑکوں پر ؟کیوں نہیں مرکزی حکومت  اور ریاستی کی باتیں انکی ہدایات انکے سمجھ میں آرہا ہے؟جبکہ انھیں کھانا  مل رہا ہے تو میری ان سبھی سے یہ گزارش ہے کہ صرف ایک دن کے لئے   گھنٹہ کھڑا ہونا 4-3وه انکے ساتھ کھانے کی لائن میں لگیں جس میں انھیں  پڑتا ہے ۔پھر وه چاول کھائے جو انھیں کھانے پڑ رہے ہیں ، پھر پورا دن بغیر  چائے پئے گزارے،ہاتھ دھو ئے بنا کھانا کھائے کیونکہ انکے پاس پانی اور  صابن بھی نہیں ہے اور پھر کسی فٹ

پاتھ،سڑک یا ایک چھوٹے سے کمرے   لو گوں کے ساتھ ایک پنکھے میں انکے ساتھ سوئے۔ ایک دن 8-7میں انکے ساتھ گزارے اور پھر ٹوئٹ کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے