ممبئی کی مجبور عوام

تحریر: زین العابدین ندوی
لاک ڈاؤن کا اکیسواں اور آخری دن تھا، ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بالخصوص عروس البلاد کہے جانے والے شہر ممبئی میں محصور افراد اپنے وطن واپس جانے کے ارمان لئے ہوئے تھے، مزدور پیشہ، مجبور طبقہ جس کے پاس نہ تو کھانے کو غذا ہے اور نہ ہی رہنے کو مکان، ہوٹلوں کے سہارے جینے والے، کرایہ کی چھت تلے رہنے والے بے کس وبے بس افراد یہ سمجھ رہے تھے کہ 14/اپریل کو وہ اپنے اپنے گھر روانہ ہوں گے اور وادی موت سے بچ نکلیں گے جہاں کورونا سے زیادہ بھکمری کا قہر آن پڑا ہے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے تغلقی فرمان جاری ہوتا ہے اور لاک ڈاؤن کی مدت میں مزید توسیع کر دی جاتی ہے، نہ تو غریبوں کی غربت پر بات کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی درماندگی کا حل بتاتے ہوئے ان کی بے کسی وبے بسی کا مداوا تلاش کیا جاتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے جائز مطالبات کی مانگ کریں، ایسا ہی ہوا باندرہ، ممبرا اور سورت کی عوام سڑکوں پر آگئی، اور اپنے وطن جانے کی مانگ کرنے لگی، جس کا جواب ایسی درندگی سے دیا گیا کہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، ان پر لاٹھی چارج کی گئی اور اس سماجی انسانی معاملہ کو مذہب کا رنگ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنے کی ناپاک کوشش کی گئی، حکومت اور وردی کے نشے میں ان معصوم انسانوں کے ساتھ جو نامناسب سلوک اپنایا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، ہمیں ایسی حکومت اور حکومتی عملہ کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، ہم خاموش کیوں ہیں؟ یہ درندگی اور جانور پن کب تک برداشت کیا جائے گا؟ ان پر لاٹھیاں تو ایسی برسائی جاتی ہیں جیسے وہ کوئی قاتل اور مجرم ہوں، کیا ان کا جرم صرف یہی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے دور ہیں، مجبور ہیں، غریب ہیں اور اپنے گھر جانا چاہتے ہیں؟ 
حق تو یہ تھا کہ ان کی بات سنی جاتی اور ان کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے بجائے ان کو بھیجنے کا کوئی راستہ نکالا جاتا، ان کے ساتھ پیار ومحبت کا معاملہ کیا جاتا، لیکن نہیں صاحب؛ حکومت نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ غریبوں کے بدن میں باقی ماندہ خون بھی چوس کر رہے گی، نہ تو ان کے جانے کا راستہ نکالے گی اور نہ ہی ان کے پیٹ کا انتظام کرے گی، اب ان مزدوروں کے پاس سواے موت کے اور کوئی چارہ نہیں ہاں انہیں اختیار ہے خواہ بھوک سے مریں یا بیماری سے لیکن بہر صورت مرنا ہی ہے، ممبئی کے احوال معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مزدوری کرنے والے اکثر وہ لوگ ہیں جو ہوٹلوں کے سہارے جیتے ہیں اور اب تمام ہوٹلیں بند ہیں، کھانے کو کچھ میسر نہیں، کچھ لوگ کھانا تقسیم کرتے ہیں تو صرف ہلدی پاوڈر، پانی اور چاول کے سوا کچھ نہیں رہتا جو حلق سے اتارے نہیں اترتا، نہ جانے کتنی جانیں جا چکی ہیں اور کتنوں نے خود کشی کر لی، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھے نہیں جاتے، آخر ان مزدوروں کے ساتھ ہمدردی کا کوئی راستہ تو ہونا چاہئے یا صرف گھروں میں ہی بیٹھ کر جان دینے کی ترغیب دی جائے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے