- استاد اور شاگرد پر مبنی کالم
میں آج اپنی زندگی کے کچھ راز سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں جن کا عیاں ہونا شاید اب کے طلباء و طالبات کےلیے بہت ضروری ہے ۔ کیوں کہ ہم نے تعلیم ، معزرت تعلیم نہیں بلکہ چنندہ نصابی کتابوں کو ہی کامیابی کی کنجی سمجھ بیٹھے ہیں لہذا ہم نصاب کو اس قدر فوقیت دینے لگے ہیں کہ اب اساتذہ ہماری نظر میں محض معلومات فراہم کرنے والا آلہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ ہم جیسے ویکیپیڈیا ، سیریا ، الیکسا کو استعمال کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح اساتذہ کا کردار ہماری زندگی میں معلوماتی الہ بن کر رہ گیا ہے ۔ معلومات حاصل کی ، سوال کیا ، تعلق ختم ۔ نہ کوئی ادب کا تعلق اور نہ ہی احترام ۔اس میں بہت حد تک ہمارے اساتذہ کا بھی عمل دخل ہے کہ اب وہ خود طلباء سے اس طرح پیش آتے ہیں کہ گویا استاد کا رشتہ نہ ہوا ایک ظالم و جابر حکمراں اور عوام یا نہایت قریبی دوست کی طرح ۔ یہ دونوں ہی طریقہ غلط ہے زیادہ سختی طلباء کو اساتذہ کی جانب سے باغی بنادیتی ہے جبکہ زیادہ نرمی سے طلباء کے اندر استاد کا احترام ندارد ہوجاتا ہے اور مزاح ہی درمیان میں رہ جاتا ہے ۔
اب آتے ہیں ان حقائق کی طرف جن کو آج میں عیاں کروں گا ۔ سب سے پہلا راز یہ کہ جب میں چھوٹا تھا مجھے استاد سے اتنی محبت تھی کہ اگر امی کو مجھ سے کوئی کام مطلوب ہوتا تو فوراً کہاں کرتی تھی ” اگر تم نے یہ کام نہیں کیا تو تمہارے ٹیچر سے کہہ دوں گی ” پھر کیا تھا چار نا چار وہ کام کی تکمیل میں کردیتا تھا۔ دوسرا راز یہ کہ میں اپنی کتابوں اور اساتذہ کے احترام میں بہت زیادہ حساس تھا ۔ اگر میرے دوست بطور مزاح بھی میرے کسی اساتذہ کا نام میرے سامنے چڑھانے کے انداز سے لیتے تو میں ان سے قطع تعلق کرلیا کرتا تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی میرے دوستوں میں چنندہ لوگ ہی شامل ہیں کیونکہ مجھے بے ادب اور بدتمیزوں کی صحبت سے تنہائی بہتر لگتی ہے جو اپنے استاد کا احترام نہیں کرسکتے وہ بھلا دوستوں کے حق میں کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں۔ اور تیسرا سب سے اہم راز جس کی تکمیل کی بنیاد پر ہی شاید آج میں اس مقام پر ہوں کہ اس ناچیز پر اساتذہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔وہ احترام ہے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری غلطی نہ ہونے کے باوجود پوری جماعت کو ٹیچر نے یہ کہہ کر مارا تھا کہ بات کرنے میں تم سب شامل تھے اس لیے سب کھڑے ہوجاؤ اور وہ مار پہلی اور آخری مرتبہ تھی جو میں نے اپنی پوری تعلیمی زندگی میں کھائی تھی ۔ اس وقت جو بچے میری طرح پڑھائی میں منہمک ہونے کے باوجود مار کا شکار ہوۓ ان میں سے کچھ نے تو دوسرے ہی دن اپنے والدین کو اسکول لے آۓ اور پرنسپل سے ٹیچر کی شکایت کی گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے ہماری جماعت سے وہ ٹیچر کا تبادلہ دوسری جماعت میں کردیا گیا ۔ اس کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ پڑھائی سے میرا دل ہی اچاٹ ہوگیا کہ کیوں کہ وہ استاد نہایت شفیق اور مہربان تھے ہم طلباء کے ساتھ ہماری غلطیوں کی اصلاح ایسے کرتے گویا ہم ان کے حقیقی بچے ہوں ۔ کبھی کبھی ہمارے ساتھ ہی وہ ریسیس میں ناشتہ کیا کرتے تھے ۔ ان کا پڑھانے کا طریقہ ، تفہیم کا طریقہ اس طرز کا تھا کہ جماعت کا ہر بچہ جوش و خروش سے ان کے لیکچر میں شامل ہوتا تھا ۔ لیکن اس دن آفس میں کام کی بنا پر آپ رہے گے اور جماعت میں کچھ شریر طلباء نے شور برپا کردیا جس کی آواز آفس تک جانے لگی ۔اور یہ ہی وجہ تھی کہ پوری جماعت کو سزا دی گئی ۔ لیکن میں نے اس مار کو بھی بطور سبق سیکھا ۔ لیکن مجھے یہ بات بہت ناگوار گزری کہ میری جماعت کی بنا پر سر کا تبادلہ دوسری جماعت میں ہوگیا ۔میں نے سر کےلیے ایک خط لکھا جو کہ میرا محبوب مشغلہ تھا جب کسی کو منانا ہو یا اس سے اپنی دل کی بات کہنا ہو تو میں خط کو ترجیح دیا کرتا تھا لہذا میں نے خط میں اپنے اس ٹیچر سے بہت التجائیں کی کہ وہ واپس ہماری جماعت میں آیں اور بہت معافی طلب کی ، بہت منت سماجت سے اس خط میں ان بچوں سے دستخط کروایا جنھوں نے ٹیچر کی والدین سے شکایت کی تھی ۔ بہت اہتمام کے ساتھ سر کے پاس گیا ۔ سر نے خط کو پڑھا اور بہت پیار سے کہا "بیٹا ایک استاد اپنے شاگرد سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوتا اور آپ جیسے فرمابردار طالب علم ہو تو استاد کو فخرمحسوس ہوتا ہے ” یہ جملہ میری زندگی کے قیمتی سرمایہ کا ایک حصہ بن گیا ۔ آپ نے مزید کہا کہ بیٹا وہ مار میں آپ تمام طلبہ کی اصلاح پوشیدہ تھی مجھے کوئی دکھ نہیں کے بچے والدین کو لے کر آیں ۔ مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ جو بچے سزا کے مستحق نہ تھے انہیں بھی میں نے سزا دی۔ ایسے استاد تھے ہمارے اور ایسا رشتہ تھا ہمارے درمیان شفقت کا محبت کا ۔آگر استاد کو والدین کا درجہ دیا گیا ہے تو بالکل اس کے وہ حق دار ہیں۔
میں قدم با قدم جماعتوں کو پھلانگتے ہوۓ یونیورسٹی پہنچ گیا ۔ لیکن استاد کا احترام اول روز کی طرح ہی دل میں قائم رہا ۔ جس کی بنا پر مجھے یونیورسٹی میں” مطیع” کا لقب ملا جس کے معنی ہوتے ہیں فرمابردار کے ۔ اساتذہ کے احترام کا سب سے بڑا فائدہ مجھے یہ ہوتا کہ میں ان کے لیکچرز کو بہت توجہ سے سمجھتا جس کی بنا پر وہ لیکچر مجھے بہت اچھے سے سمجھ آتا ۔ مزید دلچسپی پیدا ہوتی ۔ٹیچر بھی میری توجہ کو دیکھتے ہوۓ مزید پرجوش ہوکر پڑھایا کرتے تھے ۔پھر میری زندگی میں ایک ایسے استاد داخل ہوۓ جن کی ذات نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کی ۔ حالانکہ میرے تمام اساتذہ ہی بہت اچھے رہے۔ لیکن میرے ڈپلومہ کے ٹیچر جن کا تشکر میں زندگی بھر بھی ادا کروں تو نہ کرپاؤں ۔ وہ ایک ٹیچر تھی جو مجھے مصنف کہا کرتی تھی حالانکہ اس وقت میری کوئی تحریر شائع نہیں ہوئی تھی کبھی کبھی مجھے شاعر کہتی ۔ میں پہلے سے ہی لکھنے کا شوقین تھا لیکن جب جب مجھے
میری استانی مصنف کہتی میرے دل میں یہ جذبہ پروان چڑھتا کہ میں ایک مصنف بنوں۔ مجھے اشعار لکھنے کا شوق نہ تھا بس کبھی کبھی ہی آزاد نظم کی صورت میں جذبات کا اظہار کردیا کرتا تھا لیکن میری استانی کے "شاعر "لفظ نے مجھے واقع شاعر بنادیا میں شاعری کی طرف لاشعوری طور پر متوجہ ہونے لگا ۔ میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کردیا ۔ جب جب مجھے مصنف کہا جاتا میں خود کی تحریروں کو اخباروں اور کتابوں کی زینت کے طور پر دیکھتا میری آنکھیں اس خواب سے روشن ہونے لگی میں نے ایک عزم کیا کہ میں ضرور مصنف بن کر دیکھاؤں گا ۔ اس دوران میری استانی میرے حوصلوں کو مزید پروان چڑھاتی میری راہنمائی کرتی ۔ کوئی بھی وقت ہو اگر میں کچھ سوال کرتا تو بغیر پیشانی پر بل لاۓ اس کا جواب دیتی ۔ میری اصلاح کرتی ۔ اور آج اگر میں اپنے جذبات کا اظہار آپ سے کرپارہا ہوں تو اس کی بنیاد میری استانی کا وہ لفظ” مصنف” ہے .جو مجھے کہہ کر پکارا کرتی تھی۔ اس لفظ نے مجھے ایسی تحریک دی کہ آج میں ایک منزل پر کھڑا دوسری منزل کی طرف گامزن ہوں ۔
مجھے یہ بتانے میں بہت خوشی محسوس ہورہی کہ الحمدﷲ میں آج ایک مصنف ، شاعر ، ادیب ، افسانہ نگار ، اور کرداری سازی کے کالم پر دسترس رکھتا ہوں وہ ان تین رازوں کی بنا پر جو میں نے اوپر تحریر کئے ہیں ۔استاد کا ادب آپ کو بلندی اور عزت کا مقام عطا کرتا ہے ۔ اور استاد کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے وہ تعلق قائم کرے جو محبت اور شفقت کی بنیاد پر ہو۔ اگر میں فرمابردار تھا تو میرے اساتذہ بھی نہایت شفیق ، مہربان اور صلاحیتوں کو فروغ دینے والے تھے ۔ اساتذہ کے الفاظ ہم طالبِ علموں پر بہت اثرانداز ہوتے ہیں چاہے وہ اچھے ہو یا پھر بُرے ۔ انہی الفاظ سے اگر میں مصنف بن سکتا ہوں تو اسی طرح برے الفاظ سے کوئی شاگرد ناکارہ اور نکما بنسکتا ہے ۔
ازقلم: خان شبنم فاروق