بقرعید سے محرم تک

افسانہ نگار: علی شاہد دلکش

دہلیز سے باہر گھریلو خادمہ کے قدم رکھتے ہی یکایک جمیلہ کو بات یاد آئی۔ اس نے خادمہ کو پر زور آواز دی:

”رسیلہ جلد واپس اندر آجاؤ، ایک ضروری کام رہ گیا ہے.”
رسیلہ نے بھی بلند آواز میں جواب دیا:
” پاس والی گلی کے نکڑ پر مقیم بابو صاحب کے گھر جانے کا وقت ہو چکا ہے۔ آل ریڈی لیٹ ہوں۔ آپ وہیں سے بولیں۔”
جمیلہ اپنی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے حاضر دماغی کا مظاہرہ کی۔
”دو کیلو بڑے کا گوشت منگوانا ہے 50/ روپے اضافی بھی ڈیلیوری اور کیرنگ چارج کے لیے میرے ہاتھ میں موجود ہے۔”
رسیلہ خوشی خوشی الٹے پاؤں آئی۔ اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں کر گئی۔ مگر اس دوران کی گئی ان دونوں کی ساری باتوں کو سن کر قریب ترین پڑوسی شمائلہ بی نے اگل بغل کی بے پردہ پڑوسن کو اشارے سے بلاتے ہوئے جمیلہ کی چوکھٹ پہ آکر دھڑلے سے پوچھنا شروع کیا:
”کیا رے جمیلہ بہو! بقرعید گئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ اور بازار سے گوشت منگوا رہی ہو! کیا تے لوگ قربانی نہیں کی؟ جب کہ تیرا شوہر تو کسی بڑے عہدے پر فائز ہے!”
جمیلہ جواب دی:
”نہیں بڑی بی، ہمارے یہاں بھی ہوا تھا۔”
شمائلہ نے پھر سوال داغا:
” ارے بابا جب ہوا تھا تب تے لوگ اِتّا سارا گوشت اتنی جلد کیسے ہضم کر گئی؟”
اب ان کے پاس ہی کھڑی فہمیدہ بی کیوں کسی سے کم رہتی، انھوں نے بھی اپنا کھولا:
”ہم لوگ کا بلڈنگ تو بالکل تے لوگ سے متصل ہے، پھر بھی ڈھیر سارا گوشت، چربی، اور ہڈی کھانے کے بعد تے لوگ کی ڈکاریں ہمارے کانوں تک نہیں آئیں!”
جمیلہ حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے:
” میں نے تو اپنے میکے کی روایت کے مطابق قربانی کا صرف ایک حصہ گوشت رکھ کر باقی تینوں حصوں کے گوشت دوسروں کے نام کر دیا۔ اتنے سارے گوشت میں سے ایک ایک کیلو گوشت کا پیکٹ محلے اور آس پڑوس کی گلیوں میں رہنے والے غرباء و مساکین بشمول عزیز و اقارب سب کے یہاں بھیجوا دیا۔”
شمائلہ بی منہ بڑا کرکے ” اللہ۔ ۔۔ تے لوگ بھی نا! ہم لوگوں کے علاقائی غریب غرباء کا من بڑھا دے گی۔ ہزاروں ہزار روپیہ خرچ کر کے قربانی کرنے کے بعد بھی ای حالت۔۔۔! جب تک قربانی کا گوشت حفاظت سے رکھ رکھ کر گرم کر کر کے نہیں کھایا جائے ہے تو قربانی کا مزہ کر ِکرا لگے ہے”
ریحانہ بی بھی اسی بیچ ٹپک کر فقرہ کسی: ” اجی بھابی! چھوٹے شہروں کی بہویں گوشت فریز کرکے اور گرم کر کر کے حفاظت سے رکھنے کا ہنر نہیں جانے ہے۔”
زاہدہ بی بھی کسی سے کم کیوں رہتی:
” جانو ہو بھابھی، ایکچُووَلی، دیہاتوں میں تو بجلی رہے ہے نہ فریج! تو سوچنے کی بات ہے دیہاتن لوگ ڈیپ فریج یا فریزر کا حال کیسے جانے گی!”
نبیلہ بی بھی بہتے گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے۔
” ہم لوگ کا تو باپ دادا کنگالی نہیں تھا۔ ڈبل ڈیکر برانڈیڈ فریج بھی دیکر بھیجِس ہے اور کباب بھوننے والا الیکٹرک اووین بھی دِ س ہے؛ اور ہم لوگ تو باپ دادا سے قربانی کا صرف ایک حصہ گوشت بانٹ کر باقی تین حصوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے الگ الگ ڈِش اور گوشت کا ذائقہ دار آئٹم بنا بنا کر محرم تک چلاوے ہیں۔ اس سے پیسہ بھی بچے ہے اور ہم لوگ کا آدمی بھی خوش ہو جاوے ہے۔”
چہرے سے حسین بڑی بہو ممتاز رونق بھی عورتوں کے مجمع میں پیچھے سے آگے جلوہ افروز ہوتے ہوئے گویا ہوئی:
” اجی بھابی لوگ، چربی میں ڈبو کر رکھا ہوا قربانی کے گوشت کا محرم میں کھچڑا بناکر کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ایسا ذائقہ سب کو کہاں نصیب…!”
شمائلہ بی عالمانہ gossips کو راہ روش کرتے ہوئے:
” سن رے نئی بہو؛ آنکھ کان کھول کر ہم لوگ کے بیچ رہ، اور ہماری اچھی خصلتوں کو اختیار کر۔ ورنہ ہم رئیس لوگوں والے اس پورے محلہ کا ناک کٹ جائے گا۔”
جمیلہ طنزیہ اور بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ منہ کھولی:
”قسمت کی تیز ہوں کہ آپ جیسی سلیقہ منداور تیز مزاج خواتین کے درمیان رہنے کا موقع نصیب ہوا۔ اب بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ اللہ حافظ”

افسانہ نگار: علی شاہد ؔ دلکش، کوچ بہار گورنمنٹ انجینیئرنگ کالج
alishahiddilkah@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے