- جمعیۃ علماء ہند( مولانا محمود اسعد مدنی) کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت۔
- عدالت بلڈوزر کارروائیوں’ پر ملک بھر کے لیے رہ نما ہدایات بنائے گی۔
- صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ بلڈوزر سے انصاف نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہوتا ہے۔
نئی دہلی ۲؍ستمبر :جمعیۃ علماء ہند کی عرضی نمبر 295/2022 پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ نے صاف کردیا ہے کہ جھٹ پٹ انصاف کے لیے بلڈوز ر سسٹم نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ابتدائی تبصرے میں یہ بھی کہا کہ ملزم تو دور کی بات کسی مجرم کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کا تحفظ نہیں کرے گی، مگر کچھ رہنما اصول وضع کرنا ضروری ہیں۔
جسٹس بی آر گوائی اور کے وی ویشوناتھن پر مشتمل بنچ نے مختلف ریاستوں میں ”بلڈوزر کارروائیوں” کے خلاف دائر درعرضیوں کی سماعت کے دوران فریقین کو13 ستمبر تک مسودہ تجاویز پیش کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ یہ تجاویز سینئر وکیل ناچیکتا جوشی کے پاس جمع کی جائیں گی، جنہیں انہیں مرتب کر کے عدالت کے سامنے پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔بنچ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے اگلی تاریخ 17ستمبر مقرر کی ہے۔ آج جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی اور جمعیۃ کی طرف سے عرضی گزار مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت داوے اور ایم آر شمشاد عدالت میں پیش ہوئے، اس معاملے میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فرخ رشید ہیں۔یہ مقدمہ جمعیۃ علماء ہند نے جہاں گیر پوری دہلی میں بلڈوزر کارروائی کے خلاف داخل کیا تھا، جس میں جمعیۃ کو اس وقت بڑی کامیابی ملی تھی اور بلڈوزر پر روک لگادی گئی تھی، لیکن ملک میں لگاتار جاری بلڈوزر ایکشن پر جمعیۃ نے لیڈ لیتے ہوئے تین صوبوں کے خلاف خصوصی عرضی داخل کی ہے
سینئر وکیل دشینت داو ے نے مختلف بالخصوص یوپی، راجستھان، مدھیہ پردیش اور دہلی میں ہوئے حال کے واقعات بطور مثال پیش کیے۔ اس میں ایک باپ بیٹے کا بھی پیش کیا گیا، اس پر جسٹس ویشوناتھن نے کہا ایک باپ کا بیٹا نافرمان ہو سکتا ہے، لیکن اس کے باپ کے گھر کو اس بنیاد پر منہدم کیا جائے تو یہ صحیح طریقہ نہیں ہے،”
سالیسٹر جنرل آف انڈیا توشار مہتا نے اس درمیان مضحکہ خیز دلیل پیش کی کہ غیر قانونی تعمیرات سے متعلق بلدیاتی قوانین کے تحت مکانات منہدم کیے گئے۔ جمعیۃ کے وکیل سینئر وکیل دشینت داوے نے ریاستی حکومتوں کی جانب سے لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا، اور زور دے کر کہا کہ گھر کا حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے حق کا ایک پہلو ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عدالت کو منہدم کیے گئے گھروں کی دوبارہ تعمیر کا حکم دینا چاہیے۔ انھوں نے استدلال کیا کہ جے پور میں اسکول میں دوبچوں کا جھگڑا ہوا تو اس میں مسلم بچے کے والد کا گھر گرادیا گیا کہ جب کہ اس مکان کا مالک راشد خاں معمولی رکشہ ڈرائیور ہے، بڑی مشکل سے پیسے بچا کر گھر خریدا تھا، یہ کیسا انصاف ہے؟ سر اور بھی حیرت انگیز کہانیاں ہیں، یوپی کے قنوج میں ایک غریب نائی کی دکان گرادی گئی، صرف اس وجہ سے ایک ویڈیو آئی کہ وہ سر پر مالش کرتے ہوئے ہاتھ میں تھوک لگارہا ہے۔ کہاں سے اسے آپ انصاف کہیں گے اور کو ن سے میونسپل لاء میں اسے قانون کے مطابق کہا جائے گا؟
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کا بیان
عدالت میں ہوئی آج کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس معاملے کے اہم فریق صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ بلڈوزر سے انصاف نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہو تا ہے۔ انھوں نے کہا ں جس طرح سے بلڈوزر کی کارروائی کی جاتی ہے اس سے ایک پوری کمیونٹی کو سزا دی جاتی ہے، کسی ملزم کا گھر گرنے سے صرف اس کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آپ خواتین کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، آ پ نے کچھ سالوں میں ڈیرھ لاکھ مکانات گرادیے، ان کا سب سے زیادہ نقصان ان خواتین، بچے اور بوڑھوں کو ہوتا ہے۔جنھوں نے کچھ نہیں کیا، ان کو در در بھٹکنا پڑتا ہے، یہ انصاف کا کونسا طریقہ آپ نے وضع کیا ہے ؟ ہمیں امید ہے کہ عدالت اس پر سخت قدم اٹھائے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انصاف پسند طبقہ پریشان ہے۔ مولانا مدنی نے کہا انصاف کے حصول کے لیے جمعیۃ علماء ہند ہرممکن جد وجہد کرے گی اور بالکل خاموش نہیں بیٹھے گی ۔
نیاز احمد فاروقی
سکریٹر ی جمعیۃ علما ء ہند