ہندوستان میں امت مسلمہ کی کشتی جس منجھدار میں پھنس چکی ہے اس سے نکلنا ناممکن سا لگتا ہے، ہر لمحہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس یہ آخری گھڑی ہے، اور اب آر یا پار کی جنگ ہوکر رہے گی، لیکن ہمارے رہنماؤں کی جانب سے ہر مسئلے پر اتنی سرد مہری برتی جاتی ہے کہ طوفان میں تیزی آتی جاتی ہے اور ملاح عیش کی نیند سوتا رہتا ہے، تین طلاق، بابری مسجد، لنچنگ، سی اے اے این آر سی اور اب وقف بل جیسے مسلم دشمنی پر مبنی فرامین و قوانین روز مرہ کے واقعات بن چکے ہیں، اور ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کے عادی ہوتے جارہے ہیں، پہلے لنچنگ بہت بڑا مسئلہ تھا، اب لنچنگ پر کم ہی شور اٹھتا ہے!
اس موجودہ حالت میں ہماری قیادت کے لئے (اگر وہ واقعی موجود ہے) کرنے کے بہت سے کام ہیں، وقف کا مسئلہ تو چلتا رہے گا لیکن ابھی ہمارے درمیان موجود نقائص کی ایک لمبی فہرست نکلنی باقی ہے جس پر مسلم دشمن حکومت اور کفار کی نگاہیں پڑ سکتی ہیں یا پڑ چکی ہیں اور اگلے مراحل میں ان پر نشانہ لگایا جائے گا! ایسی حالت میں قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان تمام نقائص اور لوز پولز کا پتہ لگائے، جن کے راستے دشمن ہم پر حملہ آور ہوسکتا ہے، قدیم زمانے میں جب قلعے قدیم ہونے لگتے تھے اور ان کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگتی تھیں تو قلعہ کا حاکم اس کا سروے کرواتا تھا اور جتنے نقائص ملتے ان کی مرمت کراتا تھا، اور اگر کچھ چھوٹ جاتا تو فوج کی سب سے زیادہ تعداد اسی مقام پر رکھتا تھا تاکہ دشمن اس مقام سے حملہ آور ہوکر قلعہ پر قابض نہ ہوجائے!
ہمارے قائدین کو بھی دشمن کے حملے سے قبل قلعہ کے نقائص کا سروے کرانا ہوگا اور اس کے نقائص کو ٹھیک کرنا ہوگا اور جو نقص باقی رہ جائے وہاں قانون دانوں کی بھاری فوج بٹھانی ہوگی جو اس کا دفاع اس وقت تک کرتے رہیں جب تک مرمت پوری نہیں ہوجاتی!
ملک میں کئی طرح کی NGO’s کام کرتی ہیں، کوئی سیاسی ہوتی ہے، کوئی سماجی، اور کوئی تعلیمی، ان کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے بھی NGO’s کام کرتی ہیں، ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان کو جس جگہ کام کرنا ہوتا ہے وہاں اپنی ٹیم بھیجتی ہیں، ان میں سروے کرنے والے بھی ہوتے ہیں، جو مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں سے رائے لیتے ہیں پھر ان کی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر عوامی سطح پر اس منصوبہ کو نافذ کیا جاتا ہے! اگر ہماری قیادت مسلم قوم کو لیکر سنجیدہ ہے تو اسے یہ کام ضرور کرنا چاہیے اور مسلمانوں کے مسائل کو زمینی لیول پر جاننے کی کوشش کرنی چاہیے پھر اس پر منصوبے بنوانے چاہیے.
قیادت کے لئے ایسا کرنا بہت ہی آسان ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی مسجد و مدرسہ ضرور ہوتا ہے، وہاں کے ذمہ دارن اس کام میں مدد کرسکتے ہیں، لیکن قیادت کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ سروے کوئی پروفیشنل مسلمان ہی کرے، فی الحال مختلف یونیورسٹیوں میں BSW اور MSW کی تعلیم ہورہی ہے جہاں انہیں مضامین کو سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے، اور اس کورس سے اب فارغین مدارس کی بھی ایک تعداد فارغ ہوچکی ہے، جو مختلف کمپنیوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے منصوبہ بندی اور سروے کا کام کرتی ہے، قیادت ایسے فارغین مدارس کو ایک ایک شہر دیکر سروے کا کام کرا سکتی ہے، ان کے مددگار کے طور پر ان علاقوں کے ذمہ داران کو لگاسکتی ہے، اور یہ اس کام کے لئے بالکل صحیح موقع ہے، ان کی تنخواہوں کا بندوبست امت کے حوالے کیا جاسکتا ہے اور امت ضرور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی، یا زکوة کی رقم بھی اس میں خرچ کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ کام دشمنان اسلام سے دفاع کے لئے کیا جارہا ہے لہذا یہ فی سبیل اللہ کے تحت آتا ہے!
قیادت کو ایک دوسرا کام کرنے کی بھی ضرورت ہے، اور یہ بھی ایک اہم کام ہے، بلکہ سب سے اہم کام ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے دستور میں بہت سے نقائص ہیں، بہت سے چور دروازے ہیں جن پر دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے اور انہیں چور دروازوں سے قانون کا سہارا لیتے ہوئے وہ وقتا فوقتا امت مسلمہ پر حملہ آور ہے، قیادت کے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ وکلاء اور مفکرین کی ایک جماعت بنائے جس کا کام صرف اور صرف ان چور دروازوں اور ان کو بند کرنے کی قانونی صورتوں کی تلاش ہو، اس سلسلے میں قیادت کی مدد وہ فارغین مدارس کرسکتے ہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں، اسی طرح دیگر اسلام دوست مسلم وکلاء بھی مدد گار ثابت ہونگے!
قیادت ایک کام اور کرسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ حکومتی شعبوں میں بہت سے مواقع ملتے ہیں، بہت سی سہولتیں ملتی ہیں، اقلیت کے نام پر بھی کئی فوائد ہمیں حاصل ہیں لیکن لا علمی کے سبب مسلم امت ان سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے، قیادت کو ان چیزوں کے لئے ایک ٹیم تیار کرمی ہوگی جو حکومتی شعبوں میں موجود مواقع کو تلاش کریں اور مسلم قوم کو ان سے باخبر کریں، ساتھ ہی ان سے فائدہ اٹھانے کی ٹریننگ دیں.
یہ چیزیں دیگر افراد بھی کرسکتے ہیں لیکن ان کی پہنچ پورے ملک تک نہیں ہوسکتی اس لئے قیادت اگر وہ زندہ ہے تو اسے ہی ان کاموں کی شروعات کرنی ہوگی
قیادت کا کام صرف دفاع کرنا نہیں یوتا ہے بلکہ اپنی رعایا کے فائدے نقصان کا سوچتے ہوئے اقدام کرنا ہوتا ہے، یا کم از کم اتنی کوشش کرنی یوتی ہے کہ ایسی نوبت نہ آسکے کہ قوم دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو، بلکہ قیادت کو ہمیشہ ایک ایسی طاقت تیار رکھنی ہوتی ہے جو برابری کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتی ہو.
تحریر: ڈاکٹر محمد عادل خان