تحریر: مجیب الرحمٰن
کیا ماضی کا رونا رویا جائے ، یا پھر حال میں ہو رہے نادانی ، نا عاقبت اندیشی ، کا مژدہ سنایا جائے، یا پھر اچھے مستقبل کی امید پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گلے میں غلامی کا طوق ڈلنے کا انتظار کیا جائے ، بے حسی صرف سنا تھا اب مجسم شکل میں دیکھ بھی لیا ، بے غیرتی ، و بے ضمیری کا جنازہ کیسے نکلتا ہے اب دیکھ لیا ، مزید یہ کہ اللہ اور کچھ نہ دکھائے ۔
اگر کھل کر کوئ بات کہ دی جائے تو پھر ادب کا سبق یاد کروایا جاتا ہے ، اور حاشیہ بردار اپنے ساز و سامان کے ساتھ پل پڑیں گے ، لیکن حقیقت سے منہ چراؤں تو فرشتے خیریت لے لیں گے ۔ اب ایک ہی رستہ بچتا ہے کہ گونگا ، بہرا بن کر بیٹھ رہوں اور عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ کسی کو کچھ نہ کہوں ۔ لیکن پابندیوں کے تمام حدوں کو توڑ کر اس راستے پر آتا ہوں کہ ۔۔۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں
بڑے لوگ یقیناً بڑے ہوتے ہیں ان کی بزرگی کو سلام ، ان کی عظمت و تقدس پر نثار ، لیکن زمینی سطح پر عوام نے جو امیدیں لگائی تھیں اس کو عملی طور پر کتنا برتا گیا ، قیادت دنیا کو ہم نے سکھائی تھی ہمیں اس کے کار فرما تھے لیکن مصلحت کے نعروں نے غلامی کا جو طوق گلے میں ڈالا اسے چھڑانا یقیناً ممکن نہیں ہے ۔ اور اگر چھوٹ بھی جائے تو مفلوج ہوکر رہ جائیں گے ۔
شکوہ شکایت یقیناً گناہ ہے ، لیکِن قومی و ملی کا رہبر جب مفاد پرست اور خود غرض ہو جائے تو آئنہ لیکر مصلحت کا معیار ضرور دکھانا چاہئے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہماری مفاد پرستی نے کس طرح قوموں کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں ۔ اور ذاتیات کے ساتھ اجتماعیات پر کسطرح ڈاکہ زنی ہو رہی ہے اس کی ذمہ داری قبول کون کرے گا ۔
تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ قائدین لیٹر پیڈ کے ذریعہ قیادت کررہے ہوں اور اظہار افسوس کے جملوں سے رعا کو تسلی دیتے ہوں ہم نے جو بھی لیڈر دیکھا برسر پیکار دیکھا اور اس زمانے میں جان و مال اور ملی و دینی تشخص کے ساتھ خود کو زندہ پایا ۔
تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ الگ الگ تنظمیں بنائیں گئیں ہوں منصب مقرر کئے گئے ہوں اور ہر تنظیم کا اپنا نعرہ اپنا جھنڈا اپنے افراد عوام سے مالیت حصول کرکے تزک و احتشام کے ساتھ ہر سہولت کی فراوانی کرنا اپنے اپنے آفسوں میں جلسوں کانفرنسوں سیمیناروں کی ترکیب کرنا عوام کا کروڑوں روپے صرف کرنا اور سب کچھ بے نتیجہ نکلنا ، ہم نے وہ دور دیکھا پڑھا ہے جہاں ہر شخص ایک انجمن کی حیثیت رکھتا اور اپنا کام سر انجام دیتا تھا ۔
جاری