علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دی گئی’اقلیتی ادارے’کا درجہ برقرار رہے گا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں 7 ججوں کی بنچ نے دیا ہے۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 30 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی طبقے کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے۔
2005ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اے ایم یو نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ 2006ء میں اس وقت کی یو پی اے حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئی تھی۔ تاہم، 2016ء میں، ریاستی حکومت نے عرضی واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہم اس تاریخی فیصلے کا پرزور خیر مقدم کرتے ہیں ،یہ فیصلہ نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بلکہ ملک بھر کے دیگر اقلیتی اداروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بھی ان شاءاللہ ایک اہم قدم ثابت ہوگا ،سپریم کورٹ کے کل کے اس فیصلے سے اقلیتوں کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کے اقلیتی کردار کے تحفظ کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے، جو کہ ملک کے آئین و قانون میں فراہم کردہ بنیادی حقوق میں شامل ہے ۔
لیکن چونکہ ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے ،اس لیے اقلیتی کردار کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو مضبوط اور منظم لڑائی لڑنی ہوگی اور موجودہ فیصلے میں جو کچھ منفی پہلو شامل ہیں ، جس سے مستقبل میں اقلیتی کردار کے تحفظ میں مشکلات آسکتے ہیں ،جس کا ذکر ماہرین کررہے ہیں ، اس کے خاتمہ کے لیے بھی ہماری قانونی کوشش ہونی ضروری ہے ۔
یاد رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کا ایک بیش قیمت ملی سرمایہ اور اثاثہ ہے ،جس پر 1857ء کے بعد تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بہترین توانیاں اور ذہانتیں صرف ہوئیں اور وہ ہندستانی مسلمانوں اور شریف گھرانوں کے نوجوانوں کی سب سے بڑی تربیت گاہ اور ان کو ڈھالنے والی کارگاہ اور ان کی علمی و عملی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والی دانش گاہ ہے ۔جن کے ہاتھ میں ملک کی تہذیبی معاشرتی و سیاسی قیادتِ آنے والی تھی ، اس لیے ان لوگوں کے لیے جن کی ان حقائق پر نظر تھی اس سے صرف نظر کرنا کسی زمانے میں جائز نہیں تھا ۔
پھر جب یونیورسٹی کا اقلیتی کردار اور اس کے بنیادی مقاصد جن کے لیے وہ قائم کی گئی تھی خطرے میں پڑ گئے اور وہ ذہنی و اخلاقی اور تخریبی تحریکات کا مرکز بنتی نظر آئی تو اس صورت حال کے خلاف ملت کے ہمدردوں، بہی خواہوں اور درد رکھنے والوں نے ہمیشہ آواز اٹھائی، قانونی چارہ جوئی کی ،جس کی وجہ سے یہ فتنہ دبتا رہا ۔
اس وقت بھی مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی حفاظت اور دیگر اقلیتی اداروں کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو متحد ہوکر کوشش کرنا ان کی ملی اور قومی ذمہ داری ہے ، خاص طور پر سربراہان ملت ، ملی قیادت اور ملی تنظیموں کو اور بالخصوص علیگ برداران کو اس کے لیے آگے آنا ہوگا اور اس کے لیے دامے درمے قدمے اور سخنے کوشش کرنی ہوگی ۔
الحمد للّٰہ اس کے لیے کوششیں ہورہی ہیں ، اس کوشش کو مزید منظم اور مربوط انداز میں کرنے کی ضرورت ہے ۔
بہر حال سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ہم سب کو خوشی ہوئی ہے اور یہ احساس ہوا ہے کہ قانون اور حقوق کی جیت ان شاء اللہ آئیندہ بھی ہوگی ۔
تحریر: محمد قمر الزماں ندوی