کاشی، متھرا، یو پی کی سنبھل مسجد، اجمیر درگاہ جیسے مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے کی سازش
جمہوریت مخالف سرگرمیوں کی مذمت میں ملک بھر کے تمام ریاستی دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہرے کیے جانے چاہئے
چنئی۔(پریس ریلیز)
انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل)کے قومی صد ر پروفیسر کے ایم قادر محی الدین نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ ملک میں فاشسٹ طاقتیں شہریت ترمیمی بل سے شروع کرکے وقف ترمیمی بل تک مسلسل مسائل پیداکررہی ہیں۔ کاشی، متھرا اور سنبھل مسجد اور اجمیر درگاہ جیسے مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے کی جمہوریت مخالف سرگرمیوں کی مذمت میں ملک بھر کے تمام ریاستی دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہرے کیے جانے چاہئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے حکمران مرکز اور یونین اور ریاستوں میں اقتدار میں براجمان ہے اور جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں وہ کررہے ہیں۔
٭۔ وزیر اعظم نریندر مودی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں پارلیمانی انتخابی مہم کے دوران 135 میٹنگوں میں حصہ لیا۔ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے 110 میٹنگوں میں، انہوں نے ہندوستانی مسلم اقلیتوں کو گھسیٹا، اکسایا اور حملہ کیا اورمسلمانوں پر بہتان بھی لگایا ہے۔ ٭۔ وزیر داخلہ امیت شاہ۔ہندوستان کے وزیر داخلہ محترم امیت شاہ اپنی تمام میٹنگوں میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی رہنما اس طرح مہم چلاتے رہتے ہیں تو ریاستوں میں بھی وقتافوقتا اس طرح کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ اتر پردیش، اتراکھنڈ اور آسام جیسی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور کھلے عام ان کی تقریروں میں نفرت کی سیاست ہوتی ہے۔ ٭۔شہریت ترمیمی بل – وقف ترمیمی بل۔پہلے پہل شہریت ترمیمی قانون سے مسلمانوں کو الجھن میں ڈالا گیا، بعد ازاں انہوں نے کشمیر کی خصوصی درجہ کو ختم کر کے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ وقف ترمیمی بل کے ذریعے وہ پورے ملک میں دیہاتیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔ مدارس پر بھی ان کی نظر پڑی،حکومت نے مسجد کے احاطے میں چلنے والے مدارس کو ختم کرنے اور بند کرنے کا حکم جاری کیا، لیکن سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے اسے روک دیا۔ان کی نفرت کی سیاست مدارس تک نہیں رکی، اس کے بعد انہوں نے ملک کی مشہور کاشی، متھرا، کی مساجد کے بارے میں جھوٹا پروپگینڈا پھیلایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک مہم شروع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ آگرہ میں تاج محل جو دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ ایک ہندو مندر ہے۔
اس وقت، اجمیر شریف خواجہ معین الدین چشتیؒ درگاہ جہاں تمام مذاہب کے لوگ روحانی سکون تلاش کرتے ہوئے جوق درجوق جمع ہوتے ہیں اور حاضری دیتے ہیں اس درگاہ کے تعلق سے یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ یہ کوئی صوفی کا درگاہ نہیں ہے بلکہ یہ شیو مندر تھا۔
٭۔یوپی سنبھل شاہی جمعہ مسجد۔ سنبھل شاہی جمعہ مسجدجہاں مسلمان پانچ سو سال سے زائد عرصے سے اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں پانچ وقت کی نماز ادا کر رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ ایک مندر تھا۔ اس تعلق سے ضلع سول عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا اوراس کی کھدائی اور جانچ کا مطالبہ کیا گیا۔ سول کورٹ نے شاہی جمعہ مسجد کی انتظامی کمیٹی سے پوچھ تاچھ کے بغیر اور ان کے علم میں لائے بغیر مسجد کی کھدائی اور معائنہ کا یک طرفہ حکم جاری کیا۔ سرکاری اہلکاروں اور پولیس نے مسجد کے احاطے کو گھیرے میں لے کر کھدائی کا کام شروع کر دیا۔
علاقے کے مسلمان انصاف کے منتظر تھے؟ جب دوسری بار مسجد کے احاطے کو کھودنے کی ہمت کی گئی تو اس سے مشتعل ہو کر مسلمان مسجد کے احاطے کی کھدائی کو روکنے کے لیے ہجوم کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ہجوم پر پولیس کی بے دردی سے فائرنگ ہوئی۔جس میں چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ کئی زخمی ہوئے۔ مسجد کمیٹی نے براہ راست سپریم کورٹ میں اپیل کی اور اس معاملے میں 29نومبر 2024کو سنبھل شاہی جمعہ مسجد کی کھدائی پر پابندی کا عبوری فیصلہ سنایا گیا،جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کی۔ سپریم کورٹ نے جمعہ 29نومبر 2024کو کہا ہے کہ سول عدالت کے زیر التواء تمام احکامات پر عارضی روک لگاتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری 2025 کو ہوگی۔
سنبھل شاہی جمعہ مسجد کی کھدائی، فسادات اور کمیونٹی کے مصائب کی تحقیقات کرنے کے لیے انڈین یونین مسلم لیگ کے پارلیمانی صدرای ٹی محمد بشیر کی قیادت میں ممبران پارلیمنٹ پی وی عبدالوہاب، عبدالصمد صمدانی، کے۔ نواز غنی اور وکیل حارث میران سنبھل روانہ ہوئے۔ انہیں سنبھل شہر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ یہ ایک جمہوری ملک میں جمہوری تضاد ہے!
اس جمہوریت مخالف ایکٹ کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن حارث میران نے اپنے بیان میں سخت تنقید کی تھی۔ انڈین یونین مسلم لیگ کی یو تھ ونگ نے اس طرح کے زیادتیوں کے خلاف ملک گیر مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔اسی طرح سیلم، تنجاؤر، پدوچیری،میں مسلم لیگ نے زبر دست احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔
ایسا ہے کہ امت مسلمہ ملک میں ہونے والے مظالم کو مزید برداشت نہیں کر سکتی! اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ اس جمہوریت مخالف سرگرمیوں کی مذمت کے لیے تمام ریاستی دارالحکومتوں میں زبردست مظاہرے کیے جانے چائیں۔
کیااجمیر درگاہ خطرے میں ہے؟کیا سنبھل شاہی جمع مسجدکو نقصان پہنچایا جائے گا؟ کیاتاج محل پر پابندی لگائی جائے گی؟
کیا منی پور کی طرح ملک کی ہر ریاست میں تشدد کا ننگا ناچ منعقد کرنے کا منصوبہ ہے؟۔ہم متحد ہیں تو زندہ ہیں!آئیے فاشسٹ قوتوں کو شکست دینے کے لیے ہندوستانیت کا علم بلند کریں۔