شام کو دیر سے جو لوگ کہ گھر آتے ہیں
اپنے بچوں کے لیے جیسے قمر آتے ہیں
ساتھ میرے جو بہت سے ہی بشرآتے ہیں
کہکشاں کی طرح وہ لوگ نظر آتے ہیں
دھرتی سے پہلے تو خالی ہی شجر آتے ہیں
بعد مدت کے ہی ان سب پہ ثمر آتے ہیں
اہل ایماں ہیں یہی جرم فقط ہے اپنا
اس لیے اپنی طرف تیر و تبر آتے ہیں
موسمِ گل میں جو آتے تھے ہرایک دن ملنے
مجھ سے اب ملنے نہیں وہ مِرے گھر آتے ہیں
تنگ ان کے لیے ہوسکتی نہیں ہےدنیا
دوستی، پیار، کے جن کو بھی ہنر آتے ہیں
ان سے ہے ایک فقط میری شکایت عاجز
مجھ سے وہ ملتے نہیں ، میرے نگرآتے ہیں
سیِّد عزیزالرّحمٰن عاجز