تحریر: محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
اللہ رب العزت نے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہمیں ایک خوبصورت جسم دیا ہے، جسے قرآن میں ”احسن تقویم“ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ اعضاءقدرتی نظام کے تحت کام کرتے رہتے ہیں اور ان سے ہماری جسمانی ضرورت پوری ہوتی ہے، دل، پھیپھڑے، جگر وغیرہ کا شمار اعضاءرئیسہ میں ہوتا ہے، ان کے نظام میں گڑبڑی سے جسم کا سارا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود ان اعضاءکا متبادل اب تک تیار نہیں کیا جا سکا ہے، اسی لیے اگر کسی کے گردے وغیرہ میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو دوسرے انسان سے اعضاءلے کر اس کی پیوند کاری کی جاتی ہے، جس کے سہارے انسان زندگی کے کچھ ماہ وسال پا لیتا ہے، اس کام کے لیے اعضاءکی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے، جب کہ یہ قانونی طور پر جرم ہے ، آئے دن آپریشن کے نام پر انسانی جسم کے مختلف اعضاءبغیر مریض کو بتائے نکال لیے جاتے ہیں، انہیں بھاری داموں میں بیچا جاتا ہے ، کچھ رشتہ دار بھی اپنے مریضوں کو اعضاءدے کر جان بچانے کا کام کر تے ہیں ، بعض پسِ مرگ اپنے اعضاءدوسروں کی پیوند کاری کے لیے دینے کی وصیت کر جاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد وہ مریض کے کام آجاتا ہے ، حالاں کہ شریعت کی نظر میں ایسی وصیت غلط ہے، اور اس کی تنفیذ نہیں ہونی چاہیے، لیکن ایسا ہو رہا ہے، اس کے باوجود جس بڑے پیمانے پر اعضاءکی ضرورت ہے،اس کی فراہمی موجودہ طریقہ ¿ کار میں ناممکن ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ غذائی اجناس میں کیمیکل اور کھاد کی شمولیت کی وجہ سے جسمانی اعضاءکثرت سے متاثر ہوتے ہیں، دو لاکھ لوگ ہر سال لیور کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور پیوند کاری کے مواقع نہیں فراہم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سوجاتے ہیں، ڈبلو ایچ او، ڈی جی ایچ ایس اور نوٹو کی مانیں تو اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہندوستان میں کم از کم پچیس سے تیس ہزار لیور کی ضرورت الگ سے پڑے گی، تاکہ وہ سنگین مریضوں میں لگایا جا سکے، جب کہ صرف پندرہ سو لوگوں کے ہی لیور کی پیوند کاری ابھی ممکن ہو پا رہی ہے، اسی طرح دو لاکھ گردے کے مریضوں کو گردے کی ضرورت ہے، لیکن چھ ہزار مریضوں سے زیادہ گردے کی تبدیلی نہیں ہو سکتی، کیوں کہ گردے دستیاب نہیں ہیں، اسی طرح پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کا دل اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ انہیں بدلنا ضروری ہوتا ہے، لیکن ہندوستان کے صرف اٹھہتر ہوسپیٹل میں ہی یہ سہولیات دستیاب ہیں، جہاں اوسطا دو سو پچاس مریضوں سے زیادہ کے قلب کی پیوند کاری ہو ہی نہیں سکتی، پیوند کاری کے لیے دل کی فراہمی ایک الگ مسئلہ ہے ۔
سائنس دانوں کو مریضوں کی اس پریشانی سے پریشانی ہے ، تازہ اطلاع کے مطابق سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹر تیار کر لیا ہے، جو گوشت ، ہڈی کے ذرات اور کیمیکل کے آمیزہ سے خلیات ٹشوز تیار کر سکتا ہے، اسے سائنس دانوں نے میٹو پلس کا نام دیا ہے ، کوشش اس کی بھی جاری ہے کہ مصنوعی پھیپھڑا بنا لیا جائے، اس کھوج کو میڈکل کی اصطلاح میں ایکسوسوم تھروپی کے نام سے جانا جاتا ہے ،ا س طریقہ ¿ کار کی مدد سے پھیپھڑوں کو پہونچنے والے نقصانات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے ، اور ضرورت کے مطابق اس کی مرمت بھی کی جا سکتی ہے ، سائنس دانوں کا ایک تحقیقاتی منصوبہ تھری ڈی مِنی لیور ٹشوز بھی ہے، جس کی مدد سے پھیپھڑوں کے مختلف امراض کا علاج ممکن ہو سکے گا، آئی آئی ٹی کان پور مصنوعی دِل تیار کرنے میں لگا ہوا ہے، اگر یہ تحقیقات کامیابی کی منزل کو پالیتی ہیں تو اعضاءرئیسہ کے بہت سے امراض کا علاج ممکن ہو سکے گا، موت تو وقت پر ہی آتی ہے، لیکن اسباب کے درجہ میں مایوس لوگوں کے حق میں کامیابی کی طرف بڑھتے قدم کو امید افزا کہا جا سکتا ہے۔