اے جانِ من تجھے کیا لکھوں تیرے خلوص و وفا کو لکھوں یا تجھ سے جدائی کے جو غم بیت رہے ہیں اسے لکھوں سچ تو یہ ہیکہ جو کچھ لکھوں گا وہ ایک الفاظ ہوگا گرچہ وہ الفاظ جتنے ہی جامعیت اور احساسات سے لبریز ہو؛ لیکن تجھ سے جدائی کے غم کو قلم اپنے گرفت میں نہیں لاسکتا اور یہی حقیقت بھی ہے۔
اے عزیز من جب سے تجھ سے بچھڑا ہوں دل میں ایک اضطرابی سی کیفیت طاری ہے، آنکھیں بیتاب ہے تیری دیدارکو ، زبان ترس رہی ہے تجھ سے ہم کلامی کو، قلب ناصبور اور چشم باطن کو قرار نہیں مل رہا ہے تیرے بنا۔
ذہن و دماغ پر بارہا تیری یادیں تیری محبتیں، تیری وفائیں، اور تیرا خلوص، دلوں پر آکر قبضہ جماۓ بیٹھی ہیں اور بس اتنا ہی نہیں بلکہ تیرا طرز ادا اور شیریں حرکات و سکنات نے دل و دماغ کو حرز جاں بنالی ہے۔
اے یار غار، میں تو اس کھینچھا تانی میں ہوں کے تیرے کن خوبیوں اور کمالات کو نوک قلم پر لاؤں اور کسے بالاۓ طاق رکھوں، کیونکہ کہ تو بے انتہا خوبیوں کا متحمل تھا،
جن میں چند اوصاف حمیدہ جو تجھ میں نمایا طور پہ پایا جاتا تھا وہ یہ کہ تجھ میں صبر و تحمل، ایثار و قربانی، ایفاۓ عہد, استقامت و استقلال تھا بلکہ تمام اوصاف و کمالات کا تو گنجینہ دار تھا
الحاصل یہ کہ تو اپنے آپ میں ایک فقید المثال، یکتا، اور لاثانی تھا اور تو تو تو ہی تھا اور تجھ جیسا کوئی نہیں تھا۔
لیکن افسوس کہ تجھے میں پڑھ نا سکا، تیرے مزاج کو بھاپ نا سکا اور ناہنجاری میں میں نے تیرے ساتھ تلخ نوائی اور سخت زبانی سے کام لیا جس سے تجھے بے انتہا رنج و الم اور تکلیف پہنچی جس پر میں بڑا پشیماں اور اپنے کیے پر شرمسار ہوں
اور اپنے ناہنجاری پر تجھ سے بصد احترام معذرت خواہ بھی ہوں
اور افسردہ دل اور نم ناک آنکھ سے تجھے الوداعی سلام پیش کرتا ہوں
السلام السلام السلام اے میرے عزیز جان السلام
ازقلم: منظر عالم ویشالوی
متعلم مدرسہ العلوم الاسلامیہ علی گڈھ