آج سرگرمی ٔ ِ پیہم سے تری ابر ِ کرم
مے فشاں خود ہی رگِ تاک ہوئی جاتی ہے (نامعلوم)
حرکت و برکت سے بھرپور زندگی کے خواہاں قریب قریب سبھی ہوتے ہیں مگر اللہ کی نعمتوں میں ایک بیش بہا نعمت فعالیت بھی ہے جو مخصوص بندوں کے حصے میں آتی ہے۔ روز اول سے روشن ہے کہ کسی بھی بڑے منصب تک پہنچنے کے لیے برسوں چھوٹے، بڑے، ہموار و ناہموار اور پُرخطر راستوں پر گامژن رہ کر منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے جہد ِ مسلسل درکار ہوتی ہے۔ بڑی کامیابیاں و کامرانیاں محنت اور وقت طلب ہوا کرتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مختلف سماجی و سیاسی چھوٹی بڑی رکاوٹوں، چبھتے کانٹوں اور چیلینجنگ عہدوں کو عبور کرتے ہوئے آج خواجہ احمد حسین کی شخصیت انڈین نیشنل کانگریس کے سیاسی جلیل القدر عہدہ، صوبائی پردیش کانگریس کی ‘‘جنرل سکریٹری’’ کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کیے جا رہی ہے۔ واضح ہو کہ مغربی بنگال کی سیاست میں ہمارے شمالی 24 پرگنہ ضلع سے پہلی بار ایک بڑی سیاسی جماعت نے اپنے کسی کارکن کو اپنی تنظیمی کمیٹی میں اعلیٰ عہدہ سے سرفراز کیا ہے۔ دراصل سال 2020ء میں پریس نیوز بیورو کے مطابق شری ادھیر رنجن چودھری (ایم پی) اور کانگریس پارلیمانی اپوزیشن پارٹی کے لیڈروں کی قیادت میں مغربی بنگال پردیش کانگریس کی جس نئی کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی۔ اس میں کانکی نارہ کے خواجہ احمد حسین کو جنرل سکریٹری بنایا گیا۔ خاکسار علی شاہد دلکش محترم خواجہ احمد حسین کو اپنے طالب علمی کے اس زمانے سے جانتا ہے، جب انہوں نے برسوں پہلے کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول میں ایک شاندار مشاعرہ اپنے ادارہ‘‘بزم وحید عرشی’’ کے بینر تلے بہ اعزاز ‘‘ایک شام منور رانا’’ منعقد کیا تھا۔ اس کے بعد قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین جسٹس صدیقی، ماہر تعلیم مبارک کاپڑی، محترم احمد سعید ملیح آبادی(سابق صحافی و ایم پی)، سابق مرکزی وزیر و ایم پی غلام نبی آزاد، صحافی و ایم پی ایم جے اکبر، سابق ایم پی و ریاستی وزیر محمد سلیم، میم افضل(صحافی و ایم پی)، پروفیسر سلیمان خورشید(مرحوم)، صحافی و ایم پی ندیم الحق، ملی کاؤنسل کے روحِ رواں ڈاکٹر منظور عالم، ایم پی و سابق وزیر سلطان احمد(مرحوم) اور ریاستی وزیر جاوید احمد خان اور شبیر علی(سابق فٹ بالر) و دیگر اہم شخصیات کو کانکی نارہ کی سرزمین پر لانے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ ابتدائی دنوں سے ہی خواجہ احمد حسین عملی سیاست سے صرف جڑے ہی نہیں رہے بلکہ کانگریس کے سرگرم رکن رہے۔ قابل غور ہے کہ سال 1980ء میں انہوں نے بھاٹ پاڑہ ٹاؤن یوتھ کانگریس کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ تقریباً 1995ء میں سابق ایم پی دیبی گھوشال کی زیر ِ سربراہی شمالی 24 پرگنہ ضلع کانگریس کمیٹی میں سکریٹری منتخب ہوئے۔ نیز شری پرنب مکھرجی(سابق صدر جمہوریہ) جب بنگال کانگریس کے صدر تھے تب سال 2000ء میں خواجہ احمد حسین انڈین نیشنل کانگریس کی صوبائی کمیٹی (WBPCC) میں بھاٹ پاڑہ اسمبلی حلقہ سے بطور ممبر چُنے گئے۔ ابتدا سے ہی خواجہ احمد حسین کی شناخت ایک بہترین شعلہ بیاں مقرِر کی رہی ہے۔ اسی بنا پر خواجہ صاحب کو ڈاکٹر مانش بھوئیاں، پروفیسر پردیپ بھٹا جاریہ، ادھیر رنجن چودھری اور سومن مترا کی کمیٹیوں میں صوبائی سکریٹریز کے طور پر تنظیمی خدمات سر انجام دینے کے مواقع فراہم کیے جاتے رہے۔ ان کی متاثر کُن تقریری صلاحیت و خدمات کے مدنظر سال2001ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے خواجہ احمد حسین کو اسٹار پرچارک AICC Star Campaigner بنایا۔ اس طرح پورے مغربی بنگال میں آپ کی منفرد و مخصوص سیاسی شناخت بن گئی۔ کانگریسی راجنیتی میں آپ سومن مترا اور سلطان احمد کے قریبی مانے جاتے تھے۔ اُس زمانے میں طارق انور(ایم پی) اور سلطان احمد(ایم ایل اے) کی قومی تنظیم کمیٹی میں آپ جنرل سکریٹری کے عہدے پہ مامور تھے۔ یہیں سے آپ کی سماجی شہرت میں قدرے اضافہ ہوا۔ الحاج عبدالرؤف انصاری(سابق مرکزی وزیر) نیز سید شہاب الدین حیدر والی کانگریس اقلیتی شعب? میں آپ لگ بھگ دس برسوں تک جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ خواجہ صاحب ویسٹ بنگال پردیش کانگریس سچر کمیٹی کے بھی سکریٹری رہے۔ پروفیسر پردیپ بھٹاچاریہ نے آپ کو 2014ء میں AICC Minority Manifesto کمیٹی میں بحیثیت مشیر دہلی بھی روانہ کیا تھا۔ اُس میٹنگ میں راہل گاندھی خصوصی طور پر موجود تھے، جو دہلی کے جواہر بھون میں منعقد کی گئی تھی۔ پچھلے 25 برسوں سے آپ یکے بعد دیگرے پنچایت، میونسپلٹی، کارپوریشن، اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں بطور مقرر اپنی خدمات کانگریس پارٹی کو پیش کرتے رہے ہیں۔ کانگریس کے آنجہانی رہنما سومن مترا جی خواجہ احمد حسین کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سال 2019ء میں بھاٹ پاڑہ اسمبلی ضمنی انتخاب میں خواجہ احمد کو صوبائی کانگریس نے دہلی(مرکز) سے منظوری دِلا کر اپنا امیدوار نامزد کیا تھا مگر ووٹ کا نتیجہ غیر متوقع رہا۔عین الیکشن ریزلٹ کے بعد سے ہی آپ نے کچھ مدت کے لیے خود کو ضبط اور درونِ رہائش گاہ محصور و مقید کر لیا پھر چند مہینوں بعد ناچیز جیسے چند مخلصین کے اصرار پہ منظر عام پر نمودار ہوئے۔ بہر کیف انڈین نیشنل کانگریس کے ذریعے بحیثیت اسمبلی امیدوار کی یہ مخصوص نامزدگی بھی خواجہ احمد حسین کے لیے ایک اعزاز کی بات تھی۔ اب موجودہ سیاسی صورتحال میں سومن مترا کے انتقال کے بعد انڈین نیشنل کانگریس نے 2020ء میں ادھیر رنجن چودھری کو جب صدرِ نو بنایا ہے تو موجودہ کمیٹی میں آپ کو ”جنرل سکریٹری” بنایا گیا ہے۔ یہ منصب بھی سیاسی اعتبار سے اپنے آپ میں قدرے بڑا اعزاز ہے۔ خواجہ احمد حسین پیشہ سے ہائی اسکول ٹیچر ہیں۔ 1983ء میں آپ نے بحیثیت Assistant Teacher in Biology ہوڑہ ہائی اسکول(ایچ ایس)جوائن کیا۔ آپ نے کلکتہ یونیورسٹی کے ماتحت نئی ہٹی آر بی سی کالج سے (BSc (Bio، کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے M.A کیا اور پھر کلکتہ یونیورسٹی سے ہی.B.Ed کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ تدریسی سفر کا آغاز خواجہ صاحب نے کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول میں 1981ء سے کیا۔ بعد ازیں کچھ ماہ کے لیے 1983ء میں ٹیٹا گڑھ انجمن غریب المسلمین میں بھی پڑھائے۔ آپ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے سرگرم رکن بھی رہ چکے ہیں۔ موصوف مسلم انسٹیٹیوٹ کلکتہ کے لائف ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ خواجہ بھائی کی سیاسی خدمات کے پیش نظر حکومت ہند، وزارت ریلوے نے آپ کو ساؤتھ اسٹرن ریلوے نیز اسٹرن ریلوے(ZRUCC) میں باری باری ممبر نامزد کیا۔ کانکی نارہ اردو گرلس ہائی اسکول کے مجلسِ انتظامیہ کا ممبر ہونے کا شرف بھی آپ کو حاصل رہا۔ ہوڑہ ہائی اسکول کے بھی مجلسِ انتظامیہ میں نیز اکیڈمک کونسل کے ممبر رہے۔ بقول محترم غلام ربانی ماسٹر(سابق سکریٹری، کانکی نارہ اردو گرلس ہائی اسکول) اسکول ہذا کی نئی عمارت کی تعمیر میں خواجہ احمد حسین کا نمایاں و ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ آپ کی دوسری بڑی پہچان بشکل نقیبِ اجلاس و کانفرنس بھی رہی ہے۔ خواجہ احمد مشاعروں، مذہبی، ملی اور ادبی جلسوں کے نظامت بھی بدرجہ اتم کرتے رہے ہیں۔ آپ بیرون کلکتہ مشاعروں نیز ادبی سیمیناروں میں بھی شرکت کرچکے ہیں۔ اخباروں اور رسالوں میں آپ کی تخلیقات خصوصاً شخصیات پر آپ کے تاثراتی و شخصی مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ کثیر الجہات ہونے کے بنا پر آپ کی مختلف سرگرمیاں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ لہذا پورے مغربی بنگال میں جہاں جہاں اردو بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، آپ وہاں وہاں خوب جانے پہچانے جاتے ہیں۔ خواجہ احمد حسین ایک شریف اور بے ضرر انسان ہیں۔ لہذا بیشتر اردو_ہندی حلقوں کے علمی، ادبی اور سیاسی جلسوں میں بحیثیت مقرر یا مہمانِ خصوصی کے طور پر ان کی موجودگی اور فعالیت دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ متعدد بار سرکاری اور غیرسرکاری کوی سمیلن و مشاعروں، ٹی وی/ریڈیو پروگرام میں آپ کو دیکھا اور سنا گیا ھے۔ ہندی ٹی وی نیوز چینل TAZA TV پر بحیثیت Debator آپ کو متعدد دفعہ دیکھا جا چکا ہے۔ آپ کانگریس پارٹی کے ترجمان بھی ہیں۔ آپ کی ایک جذباتی نظم ‘‘ بچھڑی ہوئی ماں کے نام’’ جب مشاعروں میں سامعین و شائقین سُنتے ہیں تو بے تحاشا داد و تحسین سے نوازتے ہیں اور ایک الگ سماں بندھ جاتا ہے۔ آپ کا زیر نظر شعر بھی بہت مقبول ہوا:
ملک اور قوم کا سرمایہ ہیں،ان بچوں کو
ہندو مسلم کا پہاڑا نہ پڑھاؤ لوگو!
خواجہ احمد حسین کو انتظامی اور تنظیمی امور کے لیے اپنی خدمات دینا ورثے میں ملی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے والد بزرگوار مرحوم خواجہ شریف الحق عرصہ تک حمایت الغرباء اسکول کے مجلس ِ انتظامیہ کے ممبر مزید کانکی نارہ اردو گرلس ہائی اسکول کے صدر اور سکریٹری کے عہدے پر مامور رہے۔ پروفیسر خواجہ مجیب الحق(مولانا آذاد کالج کلکتہ اور پریسیڈینسی کالج) نیز پروفیسر وحید عرشی خواجہ احمد حسین کے سگے ماموں تھے۔ آپ کا چھوٹا بھائی مرحوم خواجہ جاوید اختر علیگ(علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے فٹ بال ٹیم کے کپتان رہے جنکی قیادت میں اے ایم یو آل انڈیا یونیورسٹی مقابلے میں چیمپئن بھی ہوئی) مقبول شاعر تھے جنہیں ریختہ ڈاٹ کے ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ ماضی میں خواجہ احمد حسین بھائی اردو اکاڈمی کے زیر ِ اشاعت لائف سائنس کی نصابی کتابوں کے پینل مصنف بھی رہ چکے ہیں۔ موصوف انجمن ترقی اردو ہند کے صوبائی کمیٹی کے ممبر کے علاوہ انجمن کے کانکی نارہ و جگتدل شاخ کے سرپرست، بزم وحید عرشی اور کانکی نارہ کاروانِ علم و ادب کے صدر بھی ہیں۔ کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول(کیم ڈی ٹی پی سنٹر) ماتحت NCPUL, Govt. Of India کے مانیٹرنگ کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔ ان کے ہم عصروں کے مطابق موصوف اپنے طالب علمی کے زمانے میں اچھے فٹ بال کھلاڑی اور NCC کے کیڈٹ بھی رہ چکے ہیں۔ آپ بنگال کے غالباً تمام ادبی رسالوں سمیت عالمی خبر نامہ، انشاء، روح ادب، تمثیلِ نو، پرواز، مژگاں، وغیرہ جیسے میعاری جریدوں میں بھی چھپتے رہتے ہیں۔ علمی و ادبی، تدریسی و سیاسی حلقوں میں بھی آپ ادب و احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ بڑے چھوٹے سبھوں کو عزیز رکھتے ہیں۔سلام میں بھی پہل کرتے ہیں۔ نا تو بے جا تنقید کرتے ہیں اور نا ہی کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ خواجہ بھائی کو بلا تفریق مسلک، شہرت، دولت اور عہدہ تقریباً سبھی لوگوں کے جنازے میں شریک ہوتے دیکھا گیا ہے۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے صرف پابند ہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر باوضو رہنا بھی پسند کرتے ہیں۔اس کا خاکسار(علی شاہدودلکش) چھوٹا بھائی نما دوست چشم دید گواہ بھی ہے۔ خواجہ بھائی کو ان کی تقریروں میں اکثر کہتے سنا گیا ہے کہ سیکولر جماعت فرقہ پرستوں کے خلاف پارلیمنٹ میں تو متحد نظر آتی ہیں مگر سیاسی گلیاروں اور چُناوی میدان میں ایک دوسرے کی حریف و بیزار نظر آتی ہیں۔ بقول شاعر ”جب آگ لگے گی تو کوئی گھر نہ بچے گا”۔ یہ کیسی سیکولرزم ہے! لہذا سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں سے التماس ہے کہ اپنی سیاسی جماعت سے زیادہ وطنِ عزیز ہندوستان کی فکر کرو۔ ورنہ ‘‘تب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا جگ جائے کھیت!’’ غور طلب ہے کہ خواجہ احمد حسین 31/ اکتوبر2020کو اپنے کامیاب تدریسی سفر کے چھتیس برس مکمل کرنے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ بقول خواجہ صاحب زندگانی کے مختلف نشیب وفراز اور دھوپ چھاؤں کے دوران جو بھی قابل ِ ذکر و قدر حصولِ منفعت و عزت اور ناموری ہے۔ یہ سب والدہ محترمہ قیصرہ بانو (مرحومہ) کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ اس ضمن میں انکی شریکِ حیات شکیلہ انام کا ہمہ تن تعاون و بے شمار قربانیاں رہی ہیں۔واضح ہو کہ نور سخن کے ذریعہ منعقد آل انڈیا مشاعرہ میں‘ منور رانا’ کی صدارت اور نقیب بے مثال ابرار کاشف کی نظامت میں پڑھے۔ سال 2024 ء میں ڈراما اور تھیٹر کی دنیا کی قدآور شخصیت ایس ایم راشد کے انٹرویوز کے سلسلے کا اولین انٹرویو ‘‘ایس ایم راشد کی دنیا’’ ان کا ہی لیا گیا اور راشد صاحبکے یوٹیوب چینیل پر نشر بھی کیا گیا۔ لہذا آئیے ہم سب انکی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آئندہ کی پُرسکون و خوشگوار زندگی کی دعا کریں۔ موصوف نے زندگی بھر محبت سے محبت کا پیغام دیا۔ کبھی نفرت کی حمایت نہیں کی۔ کسی نے ان کو نقصان بھی پہنچایا اور اگر وہ وقتی طور پر اس سے خفا بھی ہوئے تو خفگی محض عارضی رہی۔ پھر وقت گزرتے سب بھول گئے۔ ان کا ماننا ہے نفرت کو صرف اور صرف محبت سے مات دی جا سکتی ہے۔ دنیا کے ہر منافرتی مرض کی دوا محبت ہے۔ اس لیے راقم المضمون اپنے ہی زیر ِ نظر شعر کے ساتھ اپنی بات تمام کر رہا ہے۔
ہے عشق دوا اِس کی، ہے عشق شِفا اِس کی
دنیا یہ ہوئی ہے جو بیمار محبت کی
تحریر: علی شاہدؔ دلکش
واٹس ایپ : 882023945
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج، مغربی بنگال