شاہین باغ میں

میری ڈائری: سفر نامہ دہلی (قسط نمبر ٤)

ازقلم: ابن الفظ، جھارکھنڈ

تیسرے دن ہم نے شاہین باغ کی راہ لی میری بڑی خواہش تھی کہ اس تاریخ ساز جگہ کی زیارت کروں جہاں سے حکومت کے چولے ہل گئے تھے، میں نے اپنے ساتھی سے باصرار کہا تو وہ راضی ہو گئے، ہم بذریعہ آٹو وہاں پہنچ گئے ، مغرب کا وقت ہورہا تھا وہیں پر ایک وسیع و کشادہ مسجد ۔۔مسجد عمر۔۔ کے نام سے تھی نماز سے فارغ ہوکر اس گلی میں داخل ہوئے جو گلی شاہین باغ جاتی ہے، چند قدم چلے کہ آنکھوں کے سامنے شاہین باغ تھا، جہاں پر شاہینوں کی پرزور صدائیں آج بھی گونج رہی تھیں، ٹھٹرتی سردی میں خواتین کے جم گھٹے کا وہ دلدوز منظر ذہن میں گردش کررہا تھا حکومت کے خلاف صدائے احتجاج سے آج بھی فضا میں سنساہٹ ہے، وہ کشادہ سڑکیں ارا گرد جھاڑیوں کا ہجوم آج بھی ان خواتین کی دہائی دے رہا ہے،

کیا ہے شاہین باغ

میں روڈ کے کنارے کھڑے ہوکر بڑی گہری سے چاروں طرف کا معائنہ کررہا تھا میری آنکھیں دیدہ حیرت بنی ہوئی تھی ذہن کشمکش کا شکار تھا بدن میں عجیب جھمجھاہٹ تھی دل بہادر شیرنیوں کیلے محو دعا تھا گویا پورا منظر آنکھوں کے سامنے تھا اسی کیفیت میں وہاں سے ہم عشاء کے وقت اپنے ڈیرے میں پہنچ گئے۔

پہلے شاہین باغ دوسرے جگہوں کی طرح ایک جگہ تھی ، کشادہ سڑکیں ہیں ، ارد گرد جھاڑی دار درخت ہے، روڈ کے اوپر ایک برج بنا ہوا ہے ، لیکن شاہین باغ اس وقت حقیقت میں شاہین بن گیا جب حکومت کی طرف سے ایک کالے قانون نے پورے ملک میں آگ لگا دی تھی، پورا ملک سراپا احتجاج تھا، بڑے بڑے تعلیمی ادارے اپنے مشن سے صرف نظر کرتے ہوئے اس قانون کے خلاف احتجاج میں لگے ہوئے تھے، لیکن حکومت کی ظالمانہ پالیسی پولیس کی بربریت نے سب کو سرینڈر کردیا پورے ملک میں خاموشی چھا گئی، لیکن ایک شاہین باغ تھا جو کہ مکمل طور سے شاہین بنا ہوا تھا اور حکومت کی تمام ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے، اور شاہیں باغ میں کوئی مرد نہیں بلکہ وطن کی بے باک خواتین تھیں کچھ نوجوان ،کچھ ادھیڑ عمر کی کچھ بلکل ضعیف اپنے گھر بار کو خیرآباد کہہ کر، راتوں کی نیند کو تج کرکے، دن کے مصروفیات کو چھوڑ کر اپنے ملک کے تحفظ و بقا کیلے سڑک پر اتر آئ تھیں حکومت نے طرح طرح کے حربے آزمائے، ظلم کے حدود کو پار کیا، اوپر سے سرد موسم کی قہر سامانی اپنے شباب پر تھی، تمام تکلیفوں کو جھیلتے ہوئے حکومت کے کالے قانون کے خلاف کھلے آسمان کے نیچے ڈٹی ہوئ تھیں، دنیا بھی حیران تھی کہ ہندوستانی مرد خاموش ہیں، لیکن عورتیں سڑک پر ہیں بلاآخر نتیجہ بھی دنیا نے دیکھا جو کام مردوں سے نہیں ہوا وہ عورتیں کرگزری حکومت کی نیندیں اڑ گئیں، دماغ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا، عقلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، اگر کورونا وبا کی آمد نہ ہوتی تو حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑتا،

باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے