اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

ازقلم: محمد دلشاد قاسمی

آج جب دنیا علم اور سائنس کے اجالے میں ہے عالم ایک سماج اور ایک خاندان بننے کیلئے بے قرار ہے تو اندھیروں کے پرستار اپنے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی دیکھ کر گھبراہٹ اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور وہ مسلمانوں اور اسلام کو لعنت اور ملامت کر کے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اسی کوشش میں مصروف ہندتو اور قدیم تہذیب کا نعرہ لگانے والے وشو ہندو پریشد کے جنرل سیکریٹری شری اشوک سنگھل نے بنارس میں 15 جون 1995 کو ایک بیان میں کہا کہ بھارت کا دلت مسئلہ اسلامی حملہ آوروں کی پیداوار ہے مسلمانوں کے آنے سے پہلے یہاں دلتوں کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور اسی طرح کی بات اب بھی سننے کو ملتی رہتی ہے.
غور کریں کیسے پہلے انہوں نے مسلمانوں کو ایک من گھڑت جرم کا مجرم ٹھہرایا اور پھر اسلام پر بھی زہریلے تیر چلائے لیکن تاریخ کا تھوڑا بہت علم اور مختلف دھرموں کی معمولی واقفیت رکھنے والے لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے؟
لیکن آج دور پرچار اور پروپیگنڈے کا دور ہے اس لیے اس کے ماہرین اور اس کی صلاحیت رکھنے والے کبھی کبھی جھوٹ کی اتنی زور و شور سے نشر واشاعت کرتے ہیں کہ وہ بھی سچ دکھائی دینے لگتا ہے یا کم ازکم خقیقت اور شبہات کے گھیرے میں آ جاتا ہے اور بہت سے لوگ غلط فہمی کے شکار ہو جاتے ہیں.
کون نہیں جانتا کہ مہاتما گاندھی کا قتل ناتھورام گوڈسے نے کیا تھا لیکن میں نے چند مہینے پہلے گجرات کے ایک اسکول کا question پیپر دیکھا جس میں یہ question تھا
What is the reason behind the suicide of Mahatma Gandhi.
اگر ہم اپنی تاریخ کو نہیں پڑھیں گے اور اس کی حفاظت نہیں کریں گے تو غیروں کی طرف سے اسی طرح کے الزام ہمارے اوپر لگائے جاتے رہیں گے اس لیے موجودہ وقت میں تاریخ کی حفاظت کرنا بہت زیادہ ضروری کام ہے ورنہ تو یہ ہوگا کہ

پہلے تعلیم سے تم موڑ دیئے جاؤ گے

پھر کسی جرم سے تم جوڑ دیئے جاؤ گے

ہاتھ کی ہاتھ سے زنجیر بنا کر نکلو

ورنہ دھاگے کی طرح توڑ دیے جاؤ گے

سنگل صاحب کے انٹرویو میں بھی حقیقت سے عاری اور غیر منطقی باتوں کے سہارے مسلمانوں اور اسلام کو مجرم بنا کر ان کے خلاف حقارت اور نفرت کی آگ بھڑکائی گئی ہے اور دلت طبقے کو دھوکے میں ڈال کر اس کو مسلم سماج سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہےجبکہ خود ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے کہ
دلتوں کے برہما کے پاؤں سے پیدا ہونے کا بیان کس کی مذہبی کتاب میں ہے ؟

دلیتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کس نے روک لگائی؟

کس نے ان کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالنے کا قانون بنایا؟

اور ان کو عام آبادیوں سے دور بستیاں بسانے پر مجبور کیا؟

ان کو کس نے مجبور کیا کہ راستے پر ننگے پاؤں چلے اور گلے میں ہنڈیا لٹکا لے تاکہ تھوکے تو اسی میں تھوکے؟

ان کے ناپاک ٹھہرائے گئے سائے سے کون بچتا رہا؟

تلاب تک سے پانی پینے کا حق حاصل کرنے کے لئے دلتوں کو ستیا گرہ کرنے پر کس نے مجبور کیا ؟

شودروں کا متکبر انداز میں برہمنوں کو وعظ و نصیحت دینے کی ہمت کرنے پر راجہ کو اس کے منہ اور کان میں گرم تیل ڈال دینا چاہیے کا قانون کس کی کتاب میں ہے ؟

اعلی ذات کے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی خواہش رکھنے والے شودر کی کمر کو داغ کر اسے وہاں سے نکال دینا چاہیے یا پھر اس کے دونوں کولہے اس طرح کٹوا دینے چاہیے کہ وہ نہ جی سکے اور نہ مر سکے !!

کیا آج بھی کوئی دلت گاؤں کی اعلی ذات کی آبادی کے کنوئیں سے یہ نل سے پانی بھر سکتا ہے ؟

ایک عظیم شخصیت کو یہ کہنے پر کس نے مجبور کیا کہ بدقسمتی سے میں ہندو دھرم میں پیدا ہوا تھا یہ میرے اختیار کی بات نہیں تھی لیکن توہین اٰمیز حالات سے انکار کرنا میرے اختیار کے دائرے میں ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں مرتے وقت تک ہندو نہیں رہوں گا .

کس کی عبادت گاہوں کے دروازے دلتوں پر صدیوں سے بند ہیں ؟

کن کے ظلموں کے شکار دلتوں کی آبادیوں کی آبادیاں اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لیتی رہی؟
اور کیوں انہیں آج بھی اسلام ہی کے سائے میں سکون تحفظ, عزت نفس, مساوات ,اور ہمدردی حاصل ہوتی نظر آتی ہے؟

کیا کوئی بھی انصاف پسند شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ان سوالات اور حقائق کی روشنی میں مسلمان یا اسلام کہیں سے بھی دلت مسئلہ کے ذمہ دار ہیں ؟ سچی بات یہ ہے کہ جھوٹے پرچار اور فریب دہی کو بنیاد بنا کر کوئی وقتی فائدہ تو حاصل کرسکتا ہے لیکن یہ چیزیں کبھی نہ دور تک ساتھ دے سکتی ہے اور نہ کام آ سکتی ہے دلت ہزاروں سال تک اندھیروں میں بھٹکائے گئے ہیں لیکن اب وہ جاگ گئے ہیں .
آج ضرورت ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ہے اگر آپ ان کے کے چھونے سے ناپاک ہو جاتے ہیں اور دوسری جانب ان کے درد کو کوئی اپنا درد سمجھ رہا ہے تو آپ ان کو اس طرف آنے سے روک کر کڑے بندھنوں میں کیوں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں ؟

اسلام تو سارے انسانوں کو اللہ کا بندہ اور پوری بنی نوع انسانیت کو اللہ کا کنبہ ،سب کو ایک ماں باپ کی اولاد اور بھائی بھائی مانتا ہے اس میں تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے. علامہ اقبال نے کہا تھا کہ

قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

اگر دلت مسئلہ کو لے کر شری سنگل اور ان کی جیسی ذہنیت رکھنے والے مصنفین کے ذریعے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جھوٹا پرچار نہ ہوتا تو شاید کسی بھی مسلمان کو ان کی مذہبی کتابوں تاریخ اور تہذیب کو ان کے سامنے پیش کرنے اور ان کو آئینہ دکھانے کی ضرورت نہ ہوتی .

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے

نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے