اصلاح معاشرہ اورطریقہ کار سیرت نبوی کے حوالے سے

ازقلم: عین الحق امینی قاسمی
نائب صدر جمعیۃ علماءبیگوسرائے

چھٹی صدی عیسوی کے اندر ایک ایسے ماحول میں محسن انسانیت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا علم بلند کیا ، جب خوف و ہراس اور سراسیمگی سوسائٹی کی مقدر بن چکی تھی ،سفاکیت و شقاوت، شرافت وانسانیت پر ہنس رہی تھی ، فسادو بدامنی اپنے پر پھیلاۓ ، سماج کو ظلم وستم کی چکی میں پیس رہی تھی ، ہر طرف چھوٹوں میں بڑوں میں ، مردوں میں عورتوں میں ، جوانوں میں بوڑھوں میں عدم تحفظ کا احساس دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا ، بغض وعداوت اور تعصب و تنگ نظری چوبیس گھنٹے کی نقل وحرکت پر نظر جماۓ ہوۓ تھی ، شراب و کباب کی ایسی پر شور محفلیں قائم رہتیں ، جس میں فحاشیت وعر یا نیت کو خوب خوب فروغ مل رہا تھا ، زنا کو ایک سامان تفریح سمجھ کر ، زندگی کا حصہ تصور کیا جارہا تھا ، چوری اور ڈاکہ زنی کو حصول دولت کا واحد ذریعہ خیال کیا جارہا تھا ، مظلوموں کوتڑ پانا ، حقوق شکنی اور بے مروتی اور بد اخلاقی ایک عام سی بات تھی ، قتل و غارت گری اور لٹ مار گویا روزانہ کا معمول تھا۔زندہ معصوم بچیوں کو درگورکیا جانا معیوب نہیں رہ گیا تھا ۔
تب رحمۃ للعالمین محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت نبی اور رسول تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ظاہری امراض کی قباحت اور اس کی ہلاکت خیزی کو بیان فرمایا ،بلکہ امراض کی تشخیص فرماکر اس کا حقیقی علاج بھی بتایا۔اس طرح صرف ظاہری گوشت پوست کو سنوار نے پر زور نہیں دیا ، بلکہ انسانی دلوں کابھی علاج کیا اور صرف تئیس برس میں سماج کے اندر اپنی اصلاحی پالیسیوں سےایسی تبدیلی پیدا کی کہ ظلم و تشدد کے خوگر انسان ہمدردی وغم گساری ، خدا پرستی اور اطاعت گزاری کا بے مثال نمونہ بن گئے ۔

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے۔
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

برسوں کے شرابیوں نے ہونٹوں میں لگے جام تک کوزمین پر پٹخ دیا ، زانیوں نے ہمیشہ کے لیے زنا سے تو بہ کر لی ، دنیا کی تمام عورتیں ماں بہن کے درجے میں تصور کی جانے لگیں ، ڈاکو اور لٹیرے اس برے عمل کو چھوڑ کر مز دوری و تجارت کے ذریعے رزق حلال کی تلاش میں جڑ گئے ، بد کاری ، بدفعلی ، غیبت و چغل خوری ، بغض وحسد ، تکبر اور کینہ پروری اسی طرح لوٹ کھسوٹ ، بہتان والزام تراشی اوربچیوں کی پیدائش کو سماجی عیب خیال کرنے جیسی بے شمار برائیاں یکسر نا پید ہوگئیں ۔مگربیتے دور کے ساتھ اور زمانہ نبوت سے دوری کی وجہ سےآج پھر ہمارا معاشرہ مختلف طرح کے منکرات سے دوچار ہے ۔

سماج ومعاشرہ میں بڑھتے جرائم ومنکرات کی خبر یں روزانہ اخباروں میں شائع ہورہی ہیں ، آۓ دن چوری ، ڈاکہ زنی قبل وغارت گری ،ظلم وتعدی اور پڑوسیوں کے ساتھ ایذارسانی جیسے منکرات کے پنپنے کی خبر یں موصول ہوتی رہتی ہیں ، جب کہ اس بات پر ہر طبقے کا اتفاق ہے کہ جرائم ومنکرات کے رہتے ہوئے کوئی تہذیب ، معاشرو اور ملک پنپ نہیں سکتا ، چوں کہ زنا ایک گھناؤنا جرم ہے جونسل انسانی کومسخ کرتا ہے ، سماج میں ہے حیائی اور شروفساد کو جنم دیتا ہے ، سوسائٹی سے احساس تحفظ کو ختم کر دیتا ہے ، چوری ، ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ جیسے جراحی عمل معاشرے کے لیے بغاوت کی علامت ہیں، اس سے خوف و ہراس اور بداعتمادی کی فضا ہموار ہوتی ہے اور امن وسکون ہمیشہ خطرہ محسوس کرتا ہے ۔
ناحق قتل ایسا جرم ہے جو انتقامی جذبات کو بھڑ کا کر جنگ و جدال کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کرتا ہے ۔ شراب نوشی یا کسی بھی طرح کی منشیات کا استعمال ، فقر وافلاس کو دعوت دینے ، انسانی احساس کو مضمحل کرنے اور اخلاقی شعور کوختم کرنے کے ساتھ جنسی جرائم وفحاشیت کو وجود بخشنے کا بھی سبب ہے ۔
سوال یہ ہے کہ سماج سے ان برائیوں کا خاتمہ کیسے ہو ؟تلک جہیز اور شادی بیاہ کے نام پر دلہا کے خرید وفروخت کو کیسے روکا جائے ،بارات و رخصتی کے موقع پر غیر شرعی رسوم ورواج اور انسانیت وشرافت کو شرمسار کرنے والے ناچ گانوں سے ہمارا سماج کیسے محفوظ رہے ،سودی کاروبار ، جھوٹی گواہی ،حرام خوری اوردین بیزاری سے کیسے بچا جائے،ہمارا گھر خاندان اسلامی اخلاق وعادات سے بہت دور ہوتا جارہا ہے ،غیر وں کے کلچر سے ہم اس درجہ مرعوب ومبہوت ہیں کہ ہمارے لئے اپنے دین پر جمنا نہ صرف مشکل ہورہا ہے ،بلکہ ہمارےذہن اوردل ودماغ،غلط کو غلط کہنا تو دور ،غلط سمجھنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں ۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کون سی تعلیم تھی ،آپ کے پاس سماجی اصلاح کا وہ کون سا نسخہ تھا ، جس نے بگڑے ہوئے معاشرے کا نقشہ بدل دیا تھا ؟
ان مذکورہ بالا سوالات کے بہت سے جوابات میں سے اس کا سیدھااور مضبوط جواب یہ ہے کہ ” فکر آخرت اورخوف خدا” کی یقینی دعوت دی جائے، آخرت کی زندگی ہمارے دلوں سے اوجھل ہو چکی ہے اور ہم نے چندروزہ زندگانی کو ہمیشہ ہمیش کی زندگی سمجھ لیا ہے اور اس سے اس طرح اپنے آپ کو وابستہ کیا ہوا ہے کہ بس ہمیں سب روز یہیں رہنا ہے ۔جب کہ قرآن کریم کی آیات واضح طور پر رہنمائی کرتی ہیں کہ
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) یعنی
تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
( وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآَخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ) [العنكبوت: 64]
یعنی اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشہ ہے البتہ سچی زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش تم یہ جان لیتے۔”

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَکْثِرُوْا ذِکْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ یَعْنِي الْمَوْتَ۔

( الترمذي،کتاب الزهد باب : ما جاء في ذکر الموت، 4 / 553)
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو زیادہ یاد کیا کرو۔‘‘
عن ثوبان رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : یوشک الامم ان تداعیٰ علیکم کما تداعیٰ الآکلة الیٰ قصعتھا، فقال قائل: ومن قلة نحن یومئذٍ؟ قال: بل انتم یومئذٍ کثیر! ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعن اللّٰہ من صدورعدوکم المھابة منکم، ولیقذفن اللّٰہ فی قلوبکم الوھن! فقال قائل: یارسول اللّٰہ! وما الوھن؟ قال: حب الدنیا وکراھیة الموت!“ (ابوداؤد ص:۵۹)
یعنی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئےمل کر سازشیں کریں گی اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے(لذیذ)کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔الدنیا مزرعۃ الآخرہ ،یعنی یہ دنیا دارالعمل ہے ،اور آخرت دارالجزاء ہے ،یہاں ہم جیسا بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے ۔وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۳۲)
یعنی دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

یار رکھئیے !جب تک انسانی قلوب میں آخرت کا خوف اور قیامت کے دن بارگاہ رب العالمین میں پیشی کا احساس پیدانہیں ہوگا جہاں دنیا کے تمام اولین وآخرین کا اجتماع ہوگا اور ہر کسی کو اپنے اعمال کا بلاکم وکاست سزاوجزاء دیا جاۓ گا ،تب تک سماج کو اصلاح حال کے نکتے پرجمانا مشکل ہوگا،ان کے اندر اپنی ذات وسماج کی اصلاح کی فکر پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے سامنے مختلف جہتوں سے مضبوطی کے ساتھ "فکر آخرت” کو پیش کیا جائے ،ان کے سامنے بغیر کسی چینخ وپکار اور لانبے جلسوں کے ،صرف آخرت کی ہمیشہ ہمیش والی تابناک اور غضبناک دونوں زندگیوں کا مذاکرہ کیا جائے ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دینے والی اس آخری امت کی کیا ذمہ داریاں ہیں ،خودسماج کے کیا کیا حقوق ہیں ، ان حقوق کو صاحب حق تک پہنچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم محمد رسول اللہ کی کامل پیروی اور آپ کی جامع ہدایات کی مکمل پاسداری کرنے والے بن جائیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات کے ذریعہ ہی ہماری انفرادی واجتماعی زندگی مستحکم اور مضبوط ہوسکتی ہے ، سیاست ومعشیت ،تہذیب وتمدن اورعائلی نظام زندگی سے لے کر معاش ومعیشت تک میں نظم و ضبط برقرار رہ سکتا ہے ، دھوکہ دھڑی ۔ مکاری ، دغابازی ، اغوا کاری ، دروغ گوئی نفرت وعداوت بغض وحسد اور آپسی خانہ جنگی ختم ہوسکتی ہے ۔ جوا ،شراب نوشی ،گھریلو جھگڑے ،جواب وطلاق کی لت ،بے حیائی وفحاشی ،بدزبانی وبدکلامی ، شادی بیاہ اس کے طور طریقے ،بداخلاقی اور اپنی نسلوں کی اصلاح وتربیت جیسے مسائل کاحل یادرکھئیے کہ اپنی ذمہ داری کے کامل احساس اور مقصد تخلیق کو گہرائی سے سمجھے بغیر بہت مشکل ہے ۔

آج ایک بہت بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ ہم خود ،جو منکرات کی اصلاح کی آواز بلند کرتے ہیں ،بعض مواقع پر ایسا کچھ غلط کرجاتے ہیں جو اصلاح کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوتاہے ،ہم داعیوں کو اوروں سے زیادہ صبر وتحمل برتنے کی ضرورت ہے ،ایسی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس میں تحریک کار خود منکرات میں ملوث ہوں ،منکرات کے ساتھ اصلاحی جہت اپنی تابانی کبھی بھی پیش نہیں کرسکتی ، اس سلسلے میں محسن انسانیت کی پوری تئیس سالہ زندگی، خلفاء راشدین ،صحابہ کرام اور بعد کے ادوار میں حاملین قرآن وسنت داعیان اسلام کی پوری سیرت ، عزیمت پر مبنی کامل ومکمل انسائیکلوپیڈیا ہے۔اگر ان پاسبان عزیمت،عزیمت کی راہ کے راہی نہ ہوتے تونہ یہ دین ہم تک پہنچتا اور نہ ہم مشرف بایمان ہوتے ،تحریک کاروں کے لئے ذاتی تمناؤں کو کچلنا اور عزیمت کے ساتھ صبروتحمل کو گلے لگا نا پہلی شرط کے طور پر بتا یا گیا ہے۔

مگر یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ غلطی انسانوں سے ہی ہوسکتی ہے ،وہ انسان چاہے کوئی بھی ہو ، چھوٹا ہو یا بڑا عام ہو یا خاص ۔ معصوم کوئی بھی نہیں اور نہ دودھ سے دھلا ہوا ، کام ہم گنہگاروں کوہی کرنا ہے اور اپنی کمی اور خامیوں کے باوجود لوگوں کے درمیان ہم جیسے گنہگاروں کو ہی جانا ہوگا ،اس لئے انا نکرہ المعاصی ،ولانکر ہ العاصی کے تحت صفت گناہ اور غلط عادت واخلاق سے نفرت ہونی چاہئے ،خاطی اور غلط کاروں سے نہیں،اگر ہمارے بیچ کوئی اللہ کا بندہ اصلاحی فکر لے کر آتا ہے تو اس کا ساتھ بھی دینا چاہئے اور تنہائیوں میں ان کے لئے خیر پر استقامت کی دعا بھی کرتے رہنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے