ھوس کی دھوم دھام ہے نگر نگر گلی گلی

ازقلم : محمد ریحان ورنگلی

اس واضح حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں پردہ اور حجاب کا جو مرتب نظام قرآن و سنت میں واضح کیا گیا، فی الواقع عفت وعصمت کی حفاظت و ضمانت اور شرم و حیا کی بقا کا اس سے عمدہ ترین نظام کوئی نہیں؛ اس کا مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے، نہ کہ انہیں پابند سلاسل کرنا ہے، جذبات و احساسات اور اخلاق و کردار کو آوارگی سے بچائے رکھنے، تہذیب و تمدن کو زوال سے محفوظ رکھنے، معاشرتی برائیوں کا سدباب کرنے، اور خانگی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پردہ انتہائی لازم اور اولین ضرورت ہے، مرد و زن کے بے محابا اختلاط کو پوری انسانی تاریخ میں حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی بھی زمانے میں پسندیدہ نہیں سمجھا گیا؛ بلکہ اسے تہذیب و تمدن کے بگاڑ کا سبب بتلایا گیا، اور اسلام میں تو اس پر انتہائی شدومد سے قدغن لگائی گئی، اور انسدادِ فواحش اور حجاب کا باضابطہ نظام مرتب کر کے اسے واجب العمل قرار دیا گیا ہے، حجاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سماج جنسی آوارگی سے محفوظ ہو، اور سماج کے افراد اپنے دلوں کو سفلی اور شہوانی بے لگام جذبات سے پاک رکھیں۔ ایک طویل عرصے سے آزادی نسوان کےنام سے اس دنیا میں انتہائی پرفریب تحریک چلائی جا رہی ہے، اور اس کی سرپرستی یہود و نصاریٰ اور مشرکین و منافقین اپنے اپنے انداز سے کرتے آرہے ہیں؛ اخلاق و اقدار عالیہ کو کچلنے اور روشن خیالی، آزادئ لباس اور مساوات جیسے خوشنما الفاظ و اصطلاحات کی آڑ میں خواتین کے سروں سے ردائے عفت و عصمت کو تار تار کرنے کا کام روز اول ہی سے جاری ہے، عورت دن رات ہوٹلوں میں، ٹھیٹروں میں، بازاروں میں، پارکوں میں، راستوں میں، گلی کوچوں میں، برہنہ سر، نیم عریاں لباس، چہرہ بے نقاب، مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مارے مارے پھرتی نظر آتی ہے؛ حالانکہ پردہ فطرت نسوان کا تقاضا ہے، اسلام کا واجب حکم ہے، اس کے باوجود عورت کی عفت عصمت پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں؛ اس کے دامن تقدس کو داغدار کیا جارہا ہے، اسلامی عفت و عصمت کے تمام ضابطوں اور حجاب و پردے کے حکیمانہ نظام کو جیل خانہ، قید و بند اور عورتوں کے استحصال سے تعبیر کرنے کا جو مزاج عام ہوتا جا رہا ہے، اس نے انسانی سماج کو معاشرتی تباہی اور اخلاقی افلاس کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔
حجاب کے بارے کئی نقطہ پاۓ نظر پاۓ جاتے ہیں کچھ لوگ حجاب کو ایک فرسودہ روایت سمجھ کر مخالفت کرتے ہیں، اور کچھ دیدہ و دانستہ اس کی مخالفت دین اسلام کا حکم سمجھ کر کرتے ہیں، کچھ اسے خواتین پر پابندی قرار دیتے ہیں، کچھ اسے عورت کی حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جن ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں حجاب اور برقعہ پر پابندی عائد کی جا رہی ہے؛ ان ملکوں میں اسلام کی مقبولیت غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے؛ اور غیر مسلم مردوں کے ساتھ تعلیم یافتہ عورتیں خاصی تعداد میں اسلام قبول کر رہی ہیں؛ اس لہر نے ان کے حواس کو باختہ کردیا ہے، دراصل ان سیکولر اور لادین لوگوں کا مسئلہ حجاب نہیں ہے بلکہ اسلام ہے؛ اور جب جب جہاں جہاں انہیں اسلام پھیلتا پھولتا نظر آتا ہے، وہی انہیں بے چینی شروع ہوجاتی ہے، ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے، اور ان کی ساری روشن خیالی، قوت برداشت، احترام انسانیت کا سبق اور اعلی اقدار کی تلقین کسی اندھیرے کنویں کی نذر ہو جاتی ہے، اس وقت ان جنسی درندوں کو حجاب سب سے بڑا مسئلہ نظر آتا ہے، جو اس وقت عالمگیر حیثیت حاصل کر چکا ہے، انہیں عورتیں برہنہ اچھی لگتی ہے، فرانس، اسپین، جرمن سارے ملکوں کا اہم ایجنڈا حجاب بنا ہوا ہے، حجاب یہ ایسا مسئلہ بن گیا ہے جس سے دنیا کی ترقی اور یورپی سماج متاثر ہو رہا ہے، ہم دوسروں کا رونا کیا روئے! اب تو ہمارا اپنا گھر ہی اپنے چراغ سے جلنے لگا ہے،
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ نہ سکی عفیف
آج ضرورت ہے کہ بے حیائی، بے حجابی اور اختلاط کی ان تمام لعنتوں پر قدغن لگائی جائے، حیا و عفت کے اسلامی تصور سے سب کو واقف کرایا جائے، اسلام کے نظامِ عفت کے ثمرات و خیرات سے لوگوں کو روشناس کرایا جاۓ، اور بتایا جاۓ کہ دنیا کے مسائل کا حل یورپ کی عریاں اور حیاسوز تہذیب میں نہیں اسلام کے باحیاء عفیف اور پاکیزہ تمدن میں ہے؛
نیز ان خطرناک اور اخلاق سوز حالات میں مسلم سماج کے لے سفینہ نجات صرف اور صرف اسلام کا نظام عفت و عصمت اور نظام پردہ و حجاب ہی ہے، مسلم خواتین کےلے حجاب و پردہ کا نظام ہی ضامنِ عفت و عصمت ہے، اور تمام معاشرتی و اخلاقی مسائل اور بگاڑ کا حل اور علاج اس نظام سے وابستہ ہے، اور اس نظام کی عملی تطبیق ہماری مذہبی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی، اخلاقی، عقلی، فطری اور ملی ضرورت بھی ہے۔

نہ عشق با ادب رہا نہ حسن میں حیا رہی
ھوس کی دھوم دھام ہے نگر نگر گلی گلی