نہ ہوں گے پھر یہ آداب حرم جب ہم نہیں ہوں گے

آج باغباں اپنے باغ میں لوٹ آیا،آج اس چمن کے مالی کی دوبارہ آمد اپنے چمن میں ہوئی،جس چمن میں اس کے جانے سے موسم خزاں نے اپنا ڈیرا ڈال دیا تھا، اس کی آمد سے پھر مدت بعد بہار آئی،ساری کلیاں کھل گئ تھیں،کلیوں کے چہرہ پر پہلی بار ایسی مسکان تھی،لبوں پر انتہائی مسرت بھری مسکراہٹ تھی،سب خوشیوں کے نغمے گا رہی تھیں،خوش کن اور جاذب قلب راگ لگا رہی تھیں،آواز میں درد،غم و ہم اور کسک پنہاں تھی،آنکھوں میں خوشیوں کے آنسوں تھے،مگر ساری کلیاں یک زبان ہوکر گلے شکوے کر رہی تھیں،مالی کے دل میں ایک طرف اپنے چمن میں لوٹ آنے کی خوشی تھی تو دوسری طرف بے رنگ دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں کے موتی پرو رہی تھیں۔

آج پھر چمن میں مدت سے چھائی تاریکیاں چھٹ گئ تھیں،رونق دوبارہ بحال ہو گئ تھی،خوشیوں کا سماں چھا گیا تھا،ہر طرف کلیاں جھوم جھوم کر کچھ گنگنا رہی تھیں،پتا نہیں کیا سماں چھائی تھی،بخدا اس قدر پروانوں کو خوشی سے ہواؤں میں اپنے پروں کو لہراتے نہیں دیکھا تھا، آج بھی ان پھولوں کو اپنے مالی سے کیا محبت ہے،ہاۓ صدقے جاؤں،پروانے ٹوٹے پڑے تھے اس شمع پر جس کا روشن چہرہ قیامت ڈھا رہا تھا اور ساری کلیاں یہ شعر گنگنا رہی تھی
شاہیں تیرے پرواز سے جلتا ہے زمانہ
قوت بازوں سے تو اسے اور ہوا دے

باغباں اور مالی کی آنکھیں زبان حال سے یوں گویا تھیں :

ہم نے بے بہا موتی بھرے ہیں اس کے دامن میں
ہمیں رویا کرے گی شامِ ندوہ جب ہم نہیں ہوں گے

کیا بتاؤں اۓ باغباں تیری دید کی خاطر آنکھیں ترس گئ تھیں،اۓ باغباں تیری سینچائی اور پیار سے پھولوں کو پانی دیتے دیکھ کر تیرے باغ کا رخ کیا تھا، لیکن سوء حظ اور بد قسمتی سے میری آمد تک تیرا چمن اجڑ چکا تھا،تخریب کاریاں مچائی جا چکی تھیں، تیرے چمن کےہر شاخ گل پر تخریب کار اور شاعر کی زبانی الو بیٹھے تھے،تیری کمیاں ہمیشہ محسوس ہوتی تھی مگر آج تیری آمد سے دل شاد ہے،انکھوں کی حسرت آنکھوں میں دب کر قتل ہونے سے بچ گئ،تیری دید سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچ گئ،زبان پر تیرے الفاظ سے شیرینی کا ذائقہ دوبارہ آنے لگا،تلخیاں کڑواہٹ ختم ہو گئ۔

اۓ مالی تو ہمیشہ اپنے چہرہ کی زیارت کرا دینا یوں ہی،کبھی کبھی اپنے چمن میں اپنے قدم رکھ دینا تاکہ تیرے چمن ک پھولوں میں تازگی تادم رہے،پژمردگی کا سایہ بھی نا پڑے۔

آج حضرت مولانا سلمان صاحب کی آمد سے ندوے کے بچوں میں پھر خوشی کی لہر دوڑ گئ اور سب تازہ دم ہوگۓ،بچوں نے پھر حضرت کا کھلے دل سے استقبال کیا اور اپنی محبت کا انہیں احساس دلایا،یہ بتایا کہ باغ کے پھول باغباں چلے جانے سے بھول نہیں جاتا بل کہ اپنوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں خواہ ظاہر نہ کرتے ہوں مگر اپنا تو اپنا ہوتا ہے۔
💔 صدائے درد دل 💔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے