دیوالی جیسے تہواروں میں شرکت کرنا حرام ہے اور اسلام کا حکم اس معاملے میں بالکل واضح ہے۔ آئیے ذرا تفصیل سے اس کا جائزہ لیتے ہیں…
دیوالی کیا ہے؟
دیوالی روشنی کا ہندو تہوار ہے (حالانکہ بہت سکھ مسلم بھی اسے مناتے ہیں)۔ دیوالی دیوی لکشمی کے استقبال کا احساس دلانے کے لیے چراغ جلانے کے بارے میں ہے۔ یہاں ایک اہم مسئلہ ہے جس سے مسلمانوں کو آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ جشن ایک دیوی کی رسم کے بارے میں ہے لیکن بحیثیت مسلمان ہم صرف ایک اللہ پر یقین رکھتے ہیں، جو سچا، غالب، خود مختار، وہ جس کا کوئی شریک نہیں! میرے ساتھی مسلمانوں، اگر آپ دیوالی مناتے ہیں یا کسی شخص کو دیوالی،کی مبارکباد دیتے ہیں، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس سے اللہ خوش ہو جائے گا؟ جواب یقیناً نہیں ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ اسلام میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور دیوالی شرک ہے۔ دیوالی کو منا کر یا ‘ہیپی دیوالی’ کہہ کر اس کی حمایت کرنا حرام ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ ترجمہ :بیشک رسول اللہ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے ‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو،
ہمارے نبیﷺ مکہ کی سرزمین پہ غیر مسلموں کے ساتھ رہتے تھے کیا کبھی نبیﷺ نے ان کو کوئی تہوار کی مبارکباد دی؟ کیا کبھی بھی ان کے تہوار میں شریک رہے ؟ جب ہم آپ کی سیرت کو پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رہتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک رہے ان کی پریشانیوں کو استطاعت کے مطابق دور کرتے رہے ، ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے، لیکن اسلام کے معاملے میں دین کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا ، جب کفار مشرکین نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ نفرت کی باتیں ترک کر دیں۔آپ اپنے ایک معبود کی عبادت کرتے ہیں اور ہم 360 معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ،چلئے ایک دن ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے ، آپ ایک دن ہمارے معبودوں کی عبادت کریں، آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کرو ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے کافروں کے اس سمجھوتے کو تسلیم نہیں کیا اور اس کو رد کر دیا اور آپ نے اعلان کر دیا ,لکم دینکم ولی دین ، ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری مدد کریں گے تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں گے لیکن شرک کے معاملے میں ہم تمہارا ساتھ نہیں دیں گے شرک کے کام میں ہم تمہاری مدد نہیں کریں گے گے۔ اس لیے ایک مسلم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان اور اپنے دین کو ان تمام چیزوں سے پاک و صاف رکھے جس میں شرک کی آمزش ہو اور اللہ و رسول ﷺ کی نافرمانی ہو۔
میرے بھائیو اور بہنو، ہمیں اللہ نے بہترین دین عطا کیا ہے۔ اور یہی دین اللہ رب العالمین کے نزدیک معتبر اور پسندیدہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ـ ان الدین عند اللہ الاسلام ـ اللہ رب العالمین کے نزدیک اگر کوئی پسندیدہ دین ہے تو صرف اور صرف اسلام ہے۔
شوشل میڈیا کے اندر طرح طرح کے ویڈیوز اور فوٹوز ہمارے مسلم بھائی اور بہن کی دیکھنے کو ملتی ہے جو غیر مسلم کے تہوار میں شرکت کرتے ہیں خصوصا دیوالی کے موقع پر ساتھ میں مل کر دیپ جلائے جاتے ہیں اور نقش و نگار کرتے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہی اسلامی نوجوان، مائیں۔ بہنیں اس شرک جیسے تہوار میں ملوث ہیں حالانکہ ہمارے آخری نبی ﷺ نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے بتا دیا کہ ـ من تشبہ بقوم فھو منھم ـ جو بھی انسان کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے( چال چلن میں، عبادت میں، تہوار، وضع قطع میں) تو وہ انہیں میں سے ہے
اسی حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ کی اس شعر ہر غور کریں۔ کیا ہی بہتر لب و لہجہ کے ساتھ مختصر اور صاف الفاظ میں بتا دیا کہ آج جو ایک انسان اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ اپنے اند جھانک کر دیکھے کہ کیا واقعی وہ مسلمان ہیں۔ شعر دیکھیں
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!
قارئین کرام: معاشرت اورعبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے مثلاً کسی قوم کا وہ مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص انہی کی طرف منسوب ہو، اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے جیسے نصرانی ٹوپی اور ہندوانہ دھوتی، یہ سب ناجائز اور ممنوع ہے اور تشبہ میں داخل ہے ۔ اسی طرح کافروں کے تہوار میں شرکت کرنا اور اس کو مبارکباد پیش کرنا یہ تمام حرکتیں ان کے تہوار کی حمایت کرتی ہے اور یہ شرک ہے وعلی ہذا، کافروں کی زبان اور ان کے لب ولہجہ اور طرز کلام کو اس لئے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہوگا۔
اسی طرح بات آتی ہے غیر مسلم جب اپنے تہوار کے موقع پر ہمیں مٹھائیمٹھائی دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اسلامی تہوار خوشی منانے کا پاکیزہ طریقہ ہے وہ اس لائق ہے کہ اس کی مبارکبادی دی جائے اور خوشی منائی جائے شریعت اسلامیہ کے حدود میں رہتے ہوئے ، لیکن بات یہاں پر غیر مسلموں کی ہے اگر غیر مسلم لوگ عید کی مبارکباد دیتے ہیں تو دینے دیں، لیکن مسلمانوں کو غیر مسلم کے تہواروں پر مبارکباد دینے سے احتراز کرنا چاہئے اگر یقین و اطمینان ہوکہ مٹھائی وغیرہ دیوی دیوتاوٴں کے نام چڑھائی ہوئی نہیں ہوتی ہے اور حرام و ناپاک چیز کی آمیزش بھی نہیں ہوتی ہے تو استعمال ناجائز نہیں ہے تاہم احتیاط بہتر ہے۔
لیکن آج سوشل میڈیا کے اندر واٹس ایپ کے ذریعے سے فیس بک کے ذریعہ سے مسلم نوجوان لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو،غیر مسلموں کو دیوالی کی مبارکباد دے رہے ہیں ور اس کے خوشی میں شریک ہو رہے ہیں ،ساتھ ہی ساتھ دیوالی کی مٹھائی بھی کھاتے جارہے ہیں ، ذرا ایک انسان اپنے دل میں ہاتھ رکھ کے اطمینان کے ساتھ سوچیں۔ کہ ایک انسان دیوالی کی مبارکباد بھی دے دی اور مٹھائی بھی کھا لی تو شرک کو وہ انسان کہاں برا سمجھ رہا ہے، اگر شرک کو برا جانتے تو مبارکباد نہیں دیتے اور نہ ہی مٹھائی کھاتے۔ اور یہ غیر مسلم کی مشابہت اختیار کرنا ہے اور اس بارے میں حدیث ہے من تشبہ بقوم فھو منھم ـ جو بھی انسان کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے( چال چلن میں، عبادت میں، تہوار، وضع قطع میں) تو وہ انہیں میں سے ہے
پتہ یہ چلا اگر ہم غیر مسلم بھائیوں کے تیوہار میں شرکت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں تو ہم بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ اور یہ شرک ہے۔ اور شرک اللہ کے یہاں قابل گرفت ہے۔ اس کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا اگر اس کی موت اسی شرک کی حالت میں ہو گئی ہو۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(سورہ نساء ۴۸) یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا، اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہےاور جو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا، ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے غیر مسلموں کے تمام تہواروں میں شرکت کرنے اور اس کی مبارکباد پیش کرنے سے محفوظ رکھے اور جب تک زندہ رہے اسلام میں رہے اور جب ہمارا خاتمہ ہو تو اسلام اور عمل بالخیر پر ہو آمین یا رب العالمین۔
تحریر: تصویر عالم امیر حسین
متعلم: جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ لال گوپال گنج الہ اباد یوپی۔