سید الشہداء امیر حمزہ بن عبدالمطلب

تحریر: ریاض فردوسی۔9968012976

ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺟﺪﻋﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﯿﺰ کسی کا انتظار کر رہی ہے،ابھی تک نہیں آۓ،اب تک آہی جاتے ہیں۔چند ساعت بعد ہی ایک بہادر شخص گھوڑے پر سوار سامنے سے آتا دکھائی دیا۔کنیز اس شخص کا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺭﻭﮎ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔آپ تو دن دن بھر شکار کھیلتے رہتے کسی اور بھی شۓ کی خبر ہے آپ کو،صرف دن دن بھر شکار کرنا کہاں کی شرافت ہے؟وہ شخص عرب کا مشہور شہ سوار ہے،پورے عرب میں اس کی بہادری اور شجاعت کے قصے مشہور ہیں،جلال بھرے ہوۓ لہجے میں کنیز سے کہتا ہے تیرا دماغ تو خراب نہیں ہے،کیا بک رہی ہے۔کنیز بنا ڈرے کہتی ہے کہ!
ﺍﮮﺍﺑﻮ ﻋﻤﺎﺭﮦ،آپ شکار میں مست رہیں یہاں لوگ آپ کے مظلوم بھتیجے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے،ﺁﺝ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﮭﺘﯿﺠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﻭﺣﺸﯿﺎﻧﮧ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﮔﺎ ﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﺎ ﺭﮨﺎ،تب بھی محمد ﷺ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ کی۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮈﻧﮉﺍ ﺗﮭﺎ ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﺍﻃﮩﺮ ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﻟﮩﻮ ﻟﮩﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ،ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧایک بڑا پتھر مار کر سر پھاڑ دیا اور پرنور چہرے کو ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﻟﮩﻮ ﻟﮩﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺗﻦ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﮒ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ،ﻏﺼﮧ ﺳﮯ ﺁﮒ ﺑﮕﻮﻟﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﮯ ،ﺁﺝ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﯽ ﻧﺮﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ،ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺧﺒﺮ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﭘﻮﭼﮫ ﺭ ﮨﮯ ﮨﯿﮟ ،ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺑﺲ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﺷﺎﻥ ﻭ ﺷﻮﮐﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﮒ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺍﺩﺏ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻤﺰﮦ ﺑﮍﮮ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ،ﺟﻨﮓﺟﻮﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺑﮩﺎﺩﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺁﭖ ﺍﺱ ﻣﺠﻤﻊ ﻣﯿﮟ ﮔُﮭﺲ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﻤﺎﻥ ﻣﺎﺭﯼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮔﺮ ﺟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﮮ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ! ﺗﯿﺮﯼ ﯾﮧ ﻣﺠﺎﻝ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺘﯿﺠﮯ ﮐﻮ ﮔﺎ ﻟﯿﺎﮞ ﺩﮮ ، ﺳُﻦ،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﯾﻦ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ، ﺍﮔﺮ ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁ ،ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ۔ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﮐﮯ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭨﮭﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﻤﺰﮦ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﮟ،ﻣﮕﺮ ﺍﺑﻮ ﺟﮩﻞ ﺑﮍﺍ ﻣﮑﺎﺭ ﺗﮭﺎ ،ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻤﺰﮦ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﯿﺮ ﺩﻝ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺍِﻥ ﻟﻮ ﻣﮍﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺨﻮﺍﮦ ﮐﺌﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ،ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ : ﺍﺑﻮ ﻋﻤﺎﺭﮦ(ﺣﻤﺰﮦ) ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ،ﺑﺨﺪﺍ ﻣﯿﺮﯼ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮭﺘﯿﺠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺪ ﮐﻼﻣﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ۔(معجمِ کبیر،ج 3،ص140،حدیث:2926)
رات جب ہوئ تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم ﷺ نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضی اللہ عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں۔(مستدرک،ج4،ص196،حدیث: 4930)

عرب میں غزوۂ اُحد کو رُونما ہوئے 46 سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں میدانِ اُحُد کے درمیان سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران شہدائے اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سورہے ہیں۔(سبل الہدی، ج4،ص252۔کتاب المغازی للواقدی،ج1،ص267۔ دلائل النبوۃ للبیہقی،ج3،ص291) اس دوران اتفاق سے ایک شہید کے پاؤں میں بیلچہ لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سےتازہ خون بہہ نکلا۔(طبقات ابن سعد،ج3،ص7)
یہ سید شہداء نبی کریم ﷺ کے معزز چچا اور رضاعی بھائی حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھے۔(طبقات ابن سعد، ج1،ص87۔ الاستیعاب،ج1،ص425)

حمزہ بن عبد المطلب (پیدائش: 568ء یا 570ء ہے۔
امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بہت حسین و جمیل تھے،خوبصور ت پیشانی،درمیانہ قد، چھریرا (دبلا پتلا) بدن،گول بازو جبکہ کلائیاں چوڑی تھیں۔شعر و شاعری سے شغف تھا۔
آپ ﷺ اور حضرت امیر حمزہ نے حضرت ثوبیہ جو ابو لہب کی لونڈی تھی کا دودھ پیا تھا(مواہب اللدنیہ،امام قسطلانی،جلد اول مقصدثانی صفحہ 589)
آپ ﷺ سے دو برس بڑے تھے۔حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی والدہ، ھالہ بنت اھیب بن عبد مناف بن زہرہ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی چچا زاد بہن تھیں۔
شمشیر زنی، تیراندازی اور پہلوانی کا بچپن ہی سے شوق تھا،سیر و شکار سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی۔اسلام قبول کرنے سے قبل زیادہ تر وقت سیر وشکار میں ہی گزرتا تھا۔
آپ کی اولاد میں سے پانچ بیٹے تھے، چار کے نام یہ ہیں:
1۔ یعلی۔2۔عمارۃ۔3۔عمرو۔4۔عامر۔دو بیٹیاں تھیں۔ام الفضل اور۔امامہ۔

شہادت۔
غزوہ احد میں آپ نے اکتیس مشرکوں کو جہنم رسید کیا تھا۔پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی۔(ابن رجب الحنبلی: اھوال القبور)
جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا، اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طور سے تیار کیا تھا اور اس صلہ میں آزادی کا لالچ دلایا تھا،ہندہ نے بھی زیورات کا لالچ دیا تھا۔غرض وحشی جنگ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھا ہوا حضرت حمزہ ؓ کا انتظار کررہا تھا۔اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گذرے تو اس نے اچانک اس زور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا کہ آر پار ہو گیا پھر بھی آپ وحشی کی طرف زخمی شیر کی مانند جھپٹے مگر زخموں سے نڈھال ہوکر گر پڑے۔سیدنا امیر حمزہ نے جنگ بدر میں چن چن کر قریش کے ذی اثر حضرات کو واصل جہنم کیا تھا اس لیے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے۔
سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کفار نے بے پناہ خوشیاں منائیں۔ہندہ بنت عتبہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا،ناک اور کان کاٹ لیے، پیٹ چاک کرکے جگر اور کلیجہ نکال لیا۔ جگر کے ٹکڑے چبانا چاہے،مگر نگل نہ سکی۔ناک کان اور دیگر اعضائے جسم کا ہار پرو کر گلے میں ڈال لیا۔وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور اس نے یہ اشعار کہے:
”ہم نے تم سے یوم بدر کا بدلہ لے لیا ہے اور ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ کے شعلے تو بھڑکتے ہی ہیں۔ مجھے اپنے باپ عتبہ کے قتل پر اور اپنے بھائی ولید اور چچا شیبہ اور بیٹے بکر کی جدائی پر صبر اور چین نہیں آتا تھا۔آج میرا دل مطمئن ہو گیا ہے اور میں نے اپنی مانی ہوئی نذر پوری کر لی ہے۔
اے وحشی! تو نے میرے سینے کا غم دور کر دیا ہے اور میرے دکھوں کا مدوا مہیا کر دیا ہے۔وحشی کے احسان کا شکر ساری عمر کے لئے میرے اوپر واجب ہو گیا ہے،جو میں ہمیشہ ادا کرتی رہوں گی،یہاں تک کہ میری ہڈیاں قبر گل سڑ جائیں۔“

(ترجمہ۔عن عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ۔ چنانچہ صحابہ کرام نے دیکھا کہ حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے انکا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی. تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے ؟ تو صحابہ نے عرض کیا نہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ حمزہ کے جسم کے کسی بھی حصے کو جہنم میں داخل نہیں کرنا چاہتا (مسند أحمد)
ہندہ بنت عتبہ کے اشعار کا جواب اس کی ہم نام صحابیہ حضرت ہندہ بنت اثاثہ بن عباد رضی اللہ عنہا نے دیا جن کا ذکر ابن ہشام نے اپنی تاریخ میں کیا ہے۔
ترجمہ۔”تو بدر میں بھی ذلیل و رسوا ہوئی اور بدر کے بعد بھی ذلت ہی ذلت تیرا مقدر ہے۔ اے بہت غیبت کرنے والے بڑے کافر کی بیٹی”

حضرت صفیہ ؓ ، حضرت امیر حمزہ ؓ کی حقیقی بہن تھیں، بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں، لیکن آنحضرت ﷺ نے دیکھنے نہ دیا اور تسلی وتشفی دے کر واپس فرمایا، حضرت صفیہ ؓ اپنے صاحبزادہ حضرت زبیر ؓ سے کہا کہ میں یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ میرے بھائی نے کوئ زخم پیٹھ پر تو نہیں کھائیں ہیں۔نبی کریم ﷺ اپنے شیر اور اللہ کے شیر، رضائ بھائ،عم محترم کی لاش کو دیکھا،چونکہ ہندہ نے ناک کان کاٹ کر نہایت دردناک صورت بنادی تھی،اس لیے یہ منظر دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا،اور مخاطب ہوکر فرمایا تم پراللہ کی رحمت ہے،کیونکہ تم رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے، اگر مجھے صفیہ کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں اسی طرح چھوڑ دیتا کہ درند اور پرند کھا جائیں،اورتم قیامت میں ان ہی کے شکم سے اُٹھائے جاؤ،اللہ کی قسم مجھ پر تمہارا انتقام واجب ہے،میں تمہارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا،لیکن تھوڑی دیر کے بعدوحی الہی نے اس ناجائز انتقام کی ممانعت کردی، اس لیے کفارۂ یمین ادا کر کے صبرو شکیبائی اختیار فرمائی
پھر جناب صفیہ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو دو چادریں دی ان سے کفن کا کام لیا جائے،لیکن پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گور وکفن تھی، اس لیے انہوں نے دونوں شہیدانِ ملت میں ایک ایک چادر تقسیم کردی، اس ایک چادر سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اورپاؤں چھپائے جاتے تو سربرہنہ ہو جاتا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ اورپاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو،غرض سید الشہداء کا جنازہ تیار ہوا، سرورِ کائنات ﷺ نے خود نماز پڑھائی، اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے، اورآپ نے علاحدہ علاحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی اس طرح تقریبا نمازوں کے بعد غازیانِ دین نے بصد اندوہ والم اس شیر خدا اور شیر رسولﷺ کو اسی میدان میں سپرد خاک کیا۔
رحمت عالم ﷺ کو اس سانحہ پر شدید قلق تھا،مدینہ منورہ تشریف لائے اور بنی عبداشہل کی عورتوں کو اپنے اپنے اعزہ واقارب پر روتے سنا تو فرمایا،افسوس!حمزہ ؓ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں ،انصار نے یہ سن کر اپنی عورتوں کو آپ ﷺ کے گھر بھیج دیا،جنھوں نے نہایت رقت آمیز طریقہ سے سیدالشہداء ؓ پر گریہ وزاری شروع کی،اسی حالت میں آنحضرت ﷺ کی آنکھ لگ گئی،کچھ دیر کے بعد بیدار ہوئے تودیکھا کہ وہ اب تک رورہی ہیں،فرمایا کیا خوب یہ سب اب تک یہیں بیٹھی رو رہی ہیں،انہیں حکم دو کہ واپس جائیں اورآج کے بعد پھر کسی مرنے والے پر نہ روئیں۔
شہادت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت کعب بن مالک انصاری کے اشعار!
ترجمہ۔

حضرت حمزہ کے رحلت فرما جانے سے مجھ پر ایسا صدمہ ہوا ہے کہ میرا دل اور جگر لرز اٹھے ہیں۔
ایسا صدمہ اگر جبل حرا کو پہنچایا جاتا تو دیکھتا کہ اس کی چٹانوں کے دونوں کنارے تھرا اٹھتے۔
وہ ہاشمی خاندان کے معزز سردار تھے جہاں نبوت، سخاوت اور سرداری ہے۔
وہ طاقتور جانوروں کے گلے کو ذبح کرنے والے تھے جب ٹھنڈی ہوا سے پانی جمنے کے قریب ہوتا تھا (یعنی سخت سردی کے موسم میں)
جنگ کے دن جب نیزے ٹوٹ رہے ہوں وہ بہادر مد مقابل کو کشتہ تیغ بنادیتے تھے۔
تو انہیں مسلح ہوکر فخر سے چلتا ہوا دیکھتا (تو کہتا کہ) وہ خاکستری رنگ والا، مضبوط پنجوں والا، ایال دار(شیر) ہے۔
وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور برگزیدہ اصحاب میں سے ہیں، انہوں نے موت کے منہ میں چھلانگ لگائی تو وہ جگہ خوشگوار ہوگئی۔
انہوں نے اس حال میں موت سے ملاقات کی کہ ان پر(شتر مرغ کے پر کا) نشان لگا ہوا تھا، وہ مجاہدین کی ایسی جماعت میں تھے جس نے نبی اکرم اکی امداد کی اور ان میں سے کچھ لوگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔

مناقب امیر حمزہ رضی اللہ عنہ!

رمضانُ المبارک1ہجری میں 30 سواروں کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علم حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ نے عطا کیا۔اگرچہ لڑائی کی نوبت نہ آئی لیکن تاریخ میں اسے ”سرِیّہ حمزہ“ کے نام سےجانا جاتا ہے۔(طبقات ابن سعد،ج3،ص6)

پہلا حق و باطل کا معرکہ 2 ہجری میں
میدانِ بدر میں پیش آیا تو آپ رضی اللہ عنہ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مشرکین کے کئی قدآور جنگجوؤں کو واصل جہنم کیا۔آپ اپنے سر پر شتر مرغ کی کلغی سجائے ہوئے تھے جبکہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھامےاسلام کے دشمنوں کو دوزخ کی طرف روانہ کرتے ہوۓ فرماتے جاتے تھے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔(معجمِ کبیر،ج3،ص149،150،رقم:2953-2957)

ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں!

فما برحوا حتی انتدبت بغارۃ

لھم حیث حلوا ابتغی راحتہ الفضل

بامر رسول اللہ اول خافق
علیہ لو لم یکن لاح من قبلی

وہ اسلام دشمنی سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ میں ان کے ہر ٹھکانے پر حملے کے لیے آگے بڑھا، فضیلت کی راحت حاصل کرنا میرا مقصود تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔(السیوطی: انباء الاذکیاء بحیاۃ الانبیائ)

ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہاکہ میرے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی ہے میں اس کا کیا نام رکھوں؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ اپنے چچا حمزہ سے محبّت ہے لہٰذا انہیں کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھو۔(معرفۃ
الصحابۃ، ج2 ،ص21،رقم:1837)

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے چچاؤں میں سب سے بہتر حضرتِ حمزہ(رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) ہیں۔(معرفۃ الصحابۃ،ج 2،ص21،رقم: 1839)

حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں درخواست کی کہ میں حضرتِ جبریل علیہِ السَّلام کو اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا: آپ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے اصرار کیا تو نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: زمین پر بیٹھ جائیے، کچھ دیر بعد حضرت جبریل امین علیہِ السَّلام حرم ِ کعبہ میں نصب شدہ ایک لکڑی پر اترے تو سرورِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:چچا جان نگاہ اٹھائیے اور دیکھئے، آپ نے جونہی اپنی نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ حضرت جبریل علیہِ السَّلام کے دونوں پاؤں سبز زبر جد کے ہیں، بس! اتنا ہی دیکھ پائے اور تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے ۔(الطبقات الکبریٰ،ج3،ص8)

حمزہ ابن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر ہیں۔(البیھقی : دلائل النبوۃ)
سید شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ کے وقت محمد رسول اللّٰہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَأَسَدَ اللهِ وأَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللّٰہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!(شرح الزرقانی علی المواہب،ج 4،ص470)
(مزید معلومات کے لئے مطالعہ کریں۔عبد البر: الاستیعاب۔ابن الاثیر:اسد الغابۃ۔ابن سعد: الطبقات الکبری۔حاکم۔المستدرک۔برھان الدین حلبی: السیرۃ الحلبیۃ (انسان العیون) القسطلانی: المواھب اللدنیہ۔ابن کثیر: البدایۃ والنھایۃ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے