ائمہ کی تنخواہیں اور کرنے کا کام

ازقلم: ڈاکٹر محمد اسلم علیگ

فیس بک اور وہاٹس آپ پہ اکثر ایک میسیج گردش کرتا ہے کہ ائمہ کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ بلاشبہ تنخواہیں کم ہیں اس لئے شکایت بجا ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ ائمہ خود بھی سوچیں کہ امامت کے علاوہ کیا کریں کہ جاہل متولیوں کی نا سننا پڑے بلکہ عزت و وقار کے ساتھ امامت کریں۔ یعنی پانچ وقت کی نمازوں کے لئے امامت اور دوسرے سنن و نوافل میں کل کتنے وقت لگتے ہیں۔ باقی اوقات میں کیا کیا جائے؟
اس کے لئے چند گزارشات درج ذیل ہیں۔

فری لانس کا زمانہ ہے۔ بہت ساری چیزیں سیکھ سکتے ہیں اور جہاں بھی ہیں وہاں بیٹھے بیٹھے کچھ وقت کمپیوٹر وغیرہ پہ گزارکر ہزاروں روپے کما سکتے ہیں۔

مطالعہ کرکے کچھ لکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ بہت سارے لوگوں کو مواد (content) کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک، ڈیڑھ روپے فی لفظ سے لیکر کئ کئی روپے فی لفظ لوگ کما رہے ہیں۔

اردو عربی کے علاوہ مزید کسی زبان پہ عبور حاصل کرکے ترجمہ کا کام کرسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا اور دوسری چیزوں کے لئے کمپنیوں کو اور لوگوں کو بھی پرسنل برانڈنگ کے لئے گرافکس کی ضرورت ہوتی ہے۔

شہروں میں جو بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے لئے جز وقتی مکاتب قائم کیے جارہے ہیں۔ جہاں نہیں ہیں وہاں ائمہ کو خود آگے بڑھ کے کرنا چاہئے۔ یہ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں بھاری بھرکم فیس ادا کرتے ہیں۔ دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے بھی فیس لیا جائے۔

تعلیم بالغان کے کورسز چلائے جا سکتے ہیں۔
جن علاقوں میں کارخانے اور کمپنیاں ہیں وہاں تاجروں اور مزدوروں کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہئے۔

اس کام کے لئے ائمہ کو خود آگے بڑھنا چاہئے۔ اپنی عزت و وقار کا خیال کریں اور پوری خودداری کے ساتھ امامت کے فرائض انجام دیں۔ امامت کے ساتھ ساتھ دوسرے روزگار پہ بھی دھیان دیں۔

بلاشبہ جتنا آسان لکھنا ہے کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ لیکن کوئی کام مشکل ہوسکتا ہے ناممکن نہیں۔

چند روز قبل ایک مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوانماز بعد اعلان ہوا کہ بقیہ نمازوں کے بعد تشریف رکھیں قرآن کی تفسیر بیان کی جائیگی۔
نماز سے فارغ ہوکر میں بھی بیٹھ گیا۔ ایک سورت کی چند آیات کی تلاوت کی گئی اور انکا ترجمہ و تفسیر پیش کیا گیا۔ نماز کے بعد دھیرے دھیرے کچھ لوگ جارہے تھے تو کچھ لوگ آ بھی رہے تھے۔ وہ کون تھے جو آرہے تھے اس بارے میں مجھے تجسس تھا۔
درس قرآن کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ سارے پروفیشنل تعلیم حاصل کئے ہوئے افراد تھے۔ یعنی ڈاکٹر و انجینئر وغیرہ۔
تفسیر قرآن کے بعد سب سے باری باری وہی آیات سنی گئیں جن کا ترجمہ و تفسیر پیش کیا گیا تھا۔ ہر فرد نے ایک آیت کی تلاوت کیا اور ترجمہ پڑھا۔ چند ایک کے علاوہ کوئی نہ صحیح سے تلاوت کرسکا نہ ترجمہ پڑھ پایا۔ لیکن ان کے اندر شوق تھا۔ انکو کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ سب نے جیسا آیا ویسا پڑھا۔ انکی اصلاح کی گئی اور پھر سب کو ایک کتاب دی گئی جو قرآنی عربی سیکھنے کے لئے تھی۔
دو لوگ سِکھا پڑھا رہے تھے۔ وہ دونوں ڈاکٹر تھے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا شوق پیدا ہورہا ہے انکی اس پیاس کو ائمہ بجھا سکتے ہیں جہاں پیاس نہ لگی ہو وہاں پیاس لگا سکتے ہیں۔

یہ کچھ بکھرے خیالات ہیں ان پہ مزید غور کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے